میں نے ہوسٹن میں مقیم دانشور اور شاعر الطاف بخاری سے پوچھا کیا وہاں کوئی پولیس افسر یا شہر کی انتظامیہ کا سربراہ ایسا بیان دیتا یا ایسے بینرز لگواتا ہے کہ گورنر کے حکم پر عوام کو ریلیف دیا جا رہا ہے، یا صفائی ستھرائی کی جا رہی ہے یہ بھی پوچھا کہ کیا وہاں کھلی کچہریاں لگتی ہیں،جن میں افسر بیٹھ کے لوگوں کے مسائل حل کرتے ہوں یا مسائل حل کرنے کا ڈرامہ رچاتے ہوں۔انہوں نے لاحول پڑھنے کے بعد کہاں وہاں ایسی کسی خرافات کا کوئی گزر نہیں۔سب کام ازخود سسٹم کے تحت چلتا ہے۔کس نے کیا کرنا ہے اُسے بتا دیا گیا ہے۔اسے وہ کام کرنے کے لئے ریاست کے گورنر کی خوشامد یا اُس کے لئے تعریفی بینرز لگانے کی کوئی ضرورت نہیں،سب کام بڑے نارمل طریقے سے ہوتے ہیں ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں کیا جاتا ہے۔شہر کی صفائی بھی کرانی ہو تو ڈپٹی کمشنر یا کمشنر کی طرف سے شہر میں پینا فلیکس لگائے جاتے ہیں، جن پر لکھا ہوتا ہے،”وزیراعلیٰ ویژن کے مطابق شہر کو صاف ستھرا رکھنے کی مہم“ ساتھ وزیراعلیٰ کی بڑی سی تصویر بھی لگائی جاتی ہے، یا کسی پولیس افسر کی طرف سے شہر میں بینرز آویزاں کئے جاتے ہیں،جن پر لکھا ہوتا ہے وزیراعلیٰ کے حکم پر منشیات فروشوں، قبضہ گروپوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کھلی جنگ،انہوں نے کہا امریکہ میں کوئی ایسا بینر لگے تو کوئی گورنر یا افسر اپنے عہدے پر نہ رہے۔میں اُن کی بات سمجھ گیا،لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان میں یہ کلچر کیسے آ گیا۔ایس ایچ او کسی ملزم کو پکڑ لیتا ہے تو فوراً پریس کانفرنس کر کے اپنے ڈی پی او یا سی پی او کی تعریف شروع کر دیتا ہے،اُن کے حکم پر مجرموں کے خلاف کارروائی کا ڈھنڈورا پٹتا ہے۔آخر وہ خود کس مرض کی دوا ہے۔اگر اس نے آنکھیں بند کر کے اُس وقت تک بیٹھے رہنا ہے جب تک افسر اعلیٰ اُسے حرکت میں آنے کا حکم نہیں دیتے تو پھر اُس میں اور روبوٹ،بلکہ مٹی کے مادھو میں کیا فرق ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ77سال گزر جانے کے باوجود ہماری بیورو کریسی المعروف افسر شاہی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکی ہیں۔پھر وہ جگہ جگہ پینا فلیکس لگا کر بتاتی ہے، جو کچھ بھی کر رہی ہے، وزیراعلیٰ کے ویژن کے مطابق کر رہی ہے۔یہ سرا سر جعل سازی ہے۔ایک طرف خوشامد اور دوسری طرف عوام کو دھوکہ دینے کی ایک کوشش ہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر ضلع کا مالک ہوتا ہے۔یہ اُس کی ذمہ داری کا بنیادی نکتہ ہے کہ اُس نے شہر میں صفائی ستھرائی کو یقینی بنانا ہے۔لوگوں کو آسان دفتری ماحول فراہم کرنا ہے۔اسی طرح ایک ڈی پی او یا سی پی او کام ضلع میں امن و امان کو برقرار رکھنا اور عوام کو تحفظ انصاف دیناہے۔یہ چیز اُس کے کوڈ آف کنڈکٹ میں لکھ دی گئی ہے۔اس کے باوجود وہ اُس وقت تک سرگرم نہیں ہوتا جب تک وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں بیٹھ کے اس حوالے سے کوئی حکم نہ جاری کر دے۔اس کے بعد سب سے پہلے شہر بھر میں پینا فلیکس لگانے کا حکم دیا جاتا ہے،جس میں شہریوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہوتی ہے کہ وزیراعلیٰ کا حکم آ گیا ہے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔اِس لئے اب پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر انصاف حاصل کریں۔ان پینا فلیکس کی تصاویر اور کسی جگہ منعقد کی گئی کھلی کچہری کی تفصیلات اوپر مانیٹرنگ سیل کو بھیجی جاتی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ِ ضرورت کام آئے۔اس طریقہ واردات نے آج تک گڈ گورننس کا خواب پورا نہیں ہوا۔
ہم ہمیشہ نظام کو کوستے ہیں۔اُسے ہی تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں،حالانکہ نظام میرا نہیں۔یہ سرکاری افسروں کی کمزوری ہے جو انہیں اسی نظام کے ثمرات عوام تک پہنچانے کا موقع نہیں دیتی،میں ایک سی ایس پی افسر کو جانتا ہوں، وہ اب کافی سینئر ہو چکے ہیں ان کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے زیادہ عرصے تک ایک پوسٹ پر نہیں رہتے۔ایک بار اِس موضوع پر اُن سے تفصیلی بات ہوئی۔میں نے پوچھا جلد ٹرانسفر کی وجہ کیا بنتی ہے؟ انہوں نے کہا جو بھی اِس ملک میں پبلک سرونٹ بن کے کام کرنا چاہے گا،اسے اِدھر اُدھر ہونا ہی پڑے گا۔انہوں نے بتایا اُن کی جب بھی ٹرانسفر ہوئی ہے کسی کرپشن یا نااہلی کی بنیاد پر نہیں،بلکہ اس وجہ سے کہ میں اپنے اختیارات استعمال کرتا ہوں۔انہوں نے کہا افسروں کے سیاست میں ملوث ہونے کی یہ بھی ایک قسم ہے کہ وہ حاکمِ وقت کے بینرز لگا کے یہ تاثر دیں کہ جو کچھ کر رہے ہیں اُس کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔کسی ڈی سی کے ذمے جو موٹے موٹے کام ہوتے ہیں وہ اسے ازخود کرنے چاہئیں،وہ اگر خود نہیں کرتا اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ اوپر سے کوئی حکم آئے تو کروں گا،و ہ اپنے منصب کے تقاضے پورے نہیں کر رہا ہوتا۔ وہ صرف اپنی پوسٹنگ بچا رہا ہوتا ہے اور صوبے یا ملک کے حاکم کو ذاتی وفاداری کا تاثر دے رہا ہوتا ہے۔اب یہ بھی کوئی بات ہے کہ ڈپٹی کمشنر پورے شہر میں وزیراعلیٰ کی تصویر کے ساتھ یہ بینر لگائے،کہ اُس کے حکم پر صفائی اور ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا۔اگر وہ اتنا کام بھی خود نہیں کر سکتا تو اتنے شاہانہ اختیارات کا اُس نے اچار ڈالنا ہے۔پھر انہوں نے ایسی بات کی جو میرے نزدیک خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے،انہوں نے کہا آج کے بیورو کریٹس عہدہ طلبی کے غلام ہو چکے ہیں۔فیلڈ کی پوسٹنگ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں افسر نے افسر ہی رہنا ہے چاہے وہ جہاں بھی ٹرانسفر ہو جائے۔وہ سیٹ سے زیادہ عرصے تک چمٹے رہنے کے لئے ایک طرف چاپلوسی کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے بنیادی اختیارات بھی ڈر ڈر کے استعمال کرتے ہیں،جس کی وجہ سے مسائل کے انبار لگتے چلے جاتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا اگر کوئی افسر کھلی کچہری میں مسائل حل کرنے یا انصاف دینے کا دعویٰ کرتا ہے میرے نزدیک وہ سب سے ناکام افسر ہے۔
ایسی باتیں سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اسی بیورو کریسی میں ایسے افسر بھی موجود ہیں جو اس جعلی و استحصالی نظام کا حصہ بننے کو تیار نہیں جو عوام کی فلاح کے لئے فیصلے کرتے ہوئے یہ انتظار نہیں کرتے کہ اوپر سے کوئی حکم یا پالیسی آئے۔میں جب بھی یہ خبر پڑھتا یا دیکھتا ہوں کہ کسی واقعہ کا وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا،انتظامیہ متحرک ہو گئی یا پولیس کی دوڑیں لگ گئیں تو خوشی کی بجائے افسوس ہوتا ہے۔ ایک وزیراعلی کتنے واقعات کا نوٹس لے سکتا ہے اور اگر وہ نوٹس نہ لے تو متاثرین مارے مارے پھرتے رہیں۔ معاشرے ایسے نہیں بنتے، نظام ایسے نہیں چلتے، جو نظام چیف سیکرٹری سے لے کر یونین کونسل کے انچارج تک موجود ہے اور دوسری طرف تھانے کے محرر سے لے کر آئی جی تک کام کر رہا ہے۔ اگر عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہا تو اس میں کہیں نہ کہیں تو کوئی خرابی ہے۔ یہ سی ایس ایس کا نظام جو افسران پیدا کر کے فیلڈ میں بھیج رہا ہے۔ انہیں یہ بھی تو بتائے افسری ایک ذمہ داری ہے، اختیارات رعب جمانے کے لئے نہیں،عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے دیئے گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭