مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:2
بہر حال ان کا قلمی سفر جاری ہے اسی سفر کے دوران انھوں نے ایک اور منزل سر کرلی ہے، میری مرا د پیش نظر کتاب ”ریل کی جادو نگری“ ہے۔میری خوش قسمتی اور محبی سعید جاوید کی ظرف بخشی کہئے کہ انھوں نے اس کتاب کا اولین مسودہ برائے ملاحظہ مجھے عطاکیا۔ جسے میں نے حرف اول تا حرف آخر تک بغور پڑھا اور لطف اٹھایا۔خواہش ہوئی کہ اس موقر اور معتبر کتاب سے شرف وابستگی حاصل کروں۔کتاب کا نام ہی اس کے نفسِ مضمون کا تعارف ہے۔ ہرچند ریل کہانی یا ریل کی داستان پرپہلے بھی کئی ایک کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ مگر سعید جاوید کی اسم بامسمیٰ کتاب”ریل کی جادو نگری“ کا بیانیاتی تخصص اس کا طرہ امتیاز ہے۔جس کے باعث یہ تحقیقی کتاب، ریل کی روداد، تخلیقی ادب کی تاثیر کی حامل ہے۔
ریل کی جادونگری، ریل کی ایجاد،آغاز و ارتقا اور،خاص طور پر پاکستان میں، موجودہ صورت حال کی کہانی سناتی ہے۔چنانچہ کتاب میں کسی داستان کی طرح پلاٹ ک موجودگی محسوس کی جاسکتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آسان لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ سعید جاوید نے یہ مشکل کام بڑی آسانی اور سہولت سے کیا ہے کیونک”ریل کی جادو نگری“ میں انھوں نے محض اعداد و شمار کی بھر مار کرکے ”علامائیت“ بکھیرنے کی کوشش نہیں کی۔تاہم ریل کے بارے میں جہاں مناسب سمجھا تکنیکی معلومات ا و راہم تواریخ، ضروری اعداد و شمار نقل کیے ہیں۔دراصل نفسیاتی سطح پر ریل بچپن ہی سے ان کے لیے فیری ٹیلز کی طرح کشش رکھتی تھی۔چنانچہ ریل پر ان کے شعوری مطالعے اور ملاحظے پر بھی ناسٹلجک اسٹتھیٹک جھلکتا اور ہلکورے لیتا محسوس ہوتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ مصنف موصوف کی تمام کتب کا محرک ان کا ناسٹلجیا ہے تو کسی طور درست ہوگا۔کیونکہ ان کی ہر کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم پڑھ نہیں رہے بلکہ سعید جاوید داستان گو اور ہم داستان رس سامع ہیں۔ ان کے بیانئے میں سادگی شگفتگی کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں جادوئی رنگ بھی جھانکنے لگتا ہے۔ بعض جگہوں پر ریل لائنوں کی تنصیب اور پلوں کی تعمیرسے وابستہ حکایتوں،کہانیوں اور لوک قصوں کے بیان سے کتاب میں کہانوی انداز او ر داستانوی رنگ پیدا ہوگیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ”ریل دیوی“ اپنی سرگذشت سنارہی ہے۔
ریل کی جادو نگری میں سعید جاوید نے برعظیم پاک وہند میں ریل لائن کی تنصیب اور لائن پر ریل کی ”حشرسامانی“ کے حوالے ہر اس علاقے کی منظر کشی کی ہے۔ جہاں ریلوے لائن بچھی اور اس کے ساتھ انھوں نے ایسی ریلوے لائنوں کا بھی ذکر کیا ہے جو آرام دہ سفر کا وسیلہ بننے کے بجائے اب خود آرام کررہی ہیں۔جیسے غالب نے مراسلے کو مکالمہ بناکر قاری کو ملاقات کے لطف سے آشنا کیا تھا۔ کتاب کے غائر مطالعے کے بعد میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے کونے کونے اور وادی وادی میں جہاں ریلوے لائن بچھی ہوئی ہے یا بچھی ہوئی تھی، وہ آپ کوتصور میں وہاں وہاں لے کر جاتے ہیں۔ انھوں نے ریل کی جادو نگری میں بر عظیم کی سماجی اور ثقافتی اور معاشی زندگی پر ریل کے اثرات کا جائزہ سماجی معاشی اور معاشرتی سطح پربالواسطہ اور بلا واسطہ مرتب ہونے والے اثرات کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے متعدد جگہوں پرایسے اشعار،قطعے اور سماجی زندگی سے حوالے بھی نقل کیے ہیں۔اسی کتاب کے مطالعے کے دوران مجھ شاعر ِ ہیچمداں سے بھی ریل کے بارے میں چند لائنیں سرزد ہوئیں، ملاحظہ کریں:
بندہ مہجورکی صحرامیں ہوک
بستیوں کے درمیاں انجن کی کوک
ریلوے اسٹیشنوں پر زندگی کی رونقیں
ریل کے ڈبوں کی چھک چھک
دل دھڑکنے کی یہ دھک دھک
ریل کی پٹری پہ گاڑی
وقت کی پٹری پہ میں
پاؤں پاؤں،ننگے پاؤں رہگذر
منزلوں سے منزلوں کا ایک متوازی سفر
راستوں پہ راستوں کا یہ حضر
فاصلوں سے فاصلوں کا یہ مفر
انتشار ِ ِآگہی ہرگام ہے،
زندگی شاید اسی ہنگام ہی کا نام ہے
اس دعا کے ساتھ تحریر سمیٹتا ہوں کہ اللہ انھیں تندرستی سے تخلیقی توانائیوں سمیت تا دیر زندگی عطا کرے اور وہ اس ادبی انحطاط کے دور میں شمع ادب روشن رکھیں جن سے آنے والے خوش ذوق اور ادب دوست روشنی پاتے رہیں۔ آمین!
محمد ظہیربدرمجلس ترقی ادب،لاہور
( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔