مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:103
یہ تصور کرنے کی کوشش کریں کہ آپ ناکامی کو ایک جانور کے روئیے اور طرزعمل کی حیثیت سے دیکھیں۔ ایک کتے کے مطابق غور کریں جومسلسل پندرہ منٹ تک بھونکتا رہا اور پھر ایک شخص اس کے متعلق کہنے لگا۔ ”یہ کتا واقعی بہت اچھا نہیں بھونکتا، اس لیے اسے ”سی“ گریڈ دیا جاتا ہے۔ یہ کس قدر مبہم بات ہے۔ ایک جانور کے لیے اس لحاظ سے ناکامی ناممکن نہیں ہے کہ کسی فطری اور قدرتی روئیے کے تجزیے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مکڑیاں اپنے جالے بنتی ہیں، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ جالے کامیاب طو رپر بنے گئے ہیں یا ان جالوں کے بننے میں انہیں ناکامی ہوئی ہیں۔ بلیاں، چوہوں کا شکار کرتی ہیں، اگر وہ ایک کوشش میں کامیاب نہیں ہوتیں تو پھر دوسری کوشش سرانجام دیتی ہیں۔ یہ بلیاں اپنی کوششوں پر ناکامی پر واویلا نہیں کرتیں اور نہ ہی شکوہ و شکایت کرتی ہیں اورنہ ناکامی کے باعث وہ نفسیاتی پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں۔ فطری اور قدرتی رویہ اختیار کرتی ہیں تو پھر اس دنیا میں کامیابی اور ترقی کے لیے تحریک ان چند الفاظ کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں جو انسانی شخصیت کے لیے زہرقاتل ہیں۔ یہ الفاظ آپ کی عدم کامیابی کی بنیادی وجہ ہیں۔ ہر کام میں اپنی بہترین کوشش کرو۔ جب آپ معتدل رفتار سے بائیسکل چلاتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے یا آپ باغ میں آہستہ آہستہ چلتے ہیں تو پھر اس میں غلط بات کون سی ہے۔ آپ اپنی زندگی میں بعض سرگرمیوں کو بہترین طو رپر سرانجام دینے کے بجائے انہیں معتدل طریقے سے کیوں انجام دیتے ہیں؟ ”اپنی بہترین کوشش کرو“ پر مبنی رویہ اورطرزعمل آپ کو نئی اور مختلف دلچسپ اور لطف اندوز سرگرمیوں کی انجام دہی سے محروم کر سکتا ہے۔
بہت عرصہ پہلے اٹھارہ سالہ لوان ایک سکول میں پڑھتی تھی۔ یہ طالبہ بہت لائق تھی اور ہر قیمت پر کامیابی کا اعلیٰ معیار حاصل کرنا چاہتی تھی۔ لوان ابتداء ہی سے سکول کی ”اے“ گریڈ طالبہ تھی۔ وہ سکول میں ہر وقت محنت کرتی رہتی حتیٰ کہ اسے اپنی شخصیت پر بھی توجہ دینے کا موقع نہ ملتا۔ وہ حقیقتاً کتابی کیڑا تھی لیکن وہ لڑکوں سے تکلیف دہ حد تک شرماتی تھی اور جب بھی وہ ان کے ساتھ کوئی بھی بات کرنا یا کام کرنا چاہتی تو وہ گھبرا جاتی، جب جماعت میں اس کی شخصیت کے متعلق گفتگو کرنے کی کوششیں کی جاتی تو وہ شرمندگی محسوس کرتی۔ لوان نے اپنی شخصیت کی نشوونما کی قربانی دے کر اپنی تمام تر توجہ اپنی کامیابی کی طرف مبذول کر لی تھی۔ لوان سے مشاورت کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ ا س کی زندگی میں سب سے اہم چیز کون سی ہے یعنی ”تم کیا جانتی ہو“ یا تم کیا محسوس کرتی ہو؟“ اگرچہ اس کے سکول سے رخصت ہونے کا وقت قریب آ پہنچا تھا پھر بھی وہ اندرونی اور باطنی سکون سے محروم تھی اور عملی طو رپر خوشی و مسرت سے خالی تھی۔ پھر اس نے اپنے خیالات و محسوسات کو کچھ اہمیت دینا شروع کی اورچونکہ وہ بہت ہی شاندار طالبہ تھی تو اس نے نئے معاشرتی رویوں کوسیکھنے کے ضمن میں اپنے اسی تنگ نظر معیار سے کام لینا شروع کر دیا جیسا کہ وہ اپنے سکول میں انجام دیتی تھی۔ ایک سال بعد لوان کی والدہ نے مجھ سے رابطہ کیااور بتایا کہ لوان نے زندگی میں پہلی بار اپنے کالج کی انگریزی کی جماعت میں ”سی“ گریڈ حاصل کیا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔