پا کستان حلا ل مصنو عات میں منا سب منصو بہ بند ی سے مثا لی تر قی کر سکتا ہے: نصیب احمد سیف

پا کستان حلا ل مصنو عات میں منا سب منصو بہ بند ی سے مثا لی تر قی کر سکتا ہے: ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(انٹرویو: صبغت اللہ چودھری)دنیا بھر میں حلال مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ مصنوعات کسی بھی معیشت کی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ بن جائیں۔ مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان حلال مصنوعات کی عالمی منڈی میں ممتاز مقام حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ان خیالات کا اظہار لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سٹیڈنگ کمیٹی برائے لائیو سٹاک کے چیئرمین نصیب احمد سیفی نے روزنامہ ”پاکستان“ سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ حلال مصنوعات کی طلب صرف امریکہ، یورپ اور کینیڈا میں ہی نہیں بلکہ مشرق وسطی، جنوب مشرقی ایشیائ، شمالی افریقہ اور آسٹریلیاءمیں بھی حلال فوڈ کی مانگ عروج پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق ، دنیا میں مسلم آبادی ایک ارب اور 80 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جوکہ دنیا کی کل آبادی کا 28 فی صد ہے۔ ان میں سے 60 فی صد مسلمان ایشیاءمیں رہتے ہیں۔ مسلم آبادی کا پانچواں حصہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں رہتا ہے۔ 40 سے 60 کروڑ مسلمان اقلیتوں کی حیثیت سے غیر مسلم ممالک میں آباد ہیں۔ یورپ میں 3 کروڑ اکیاسی لاکھ ، کینیڈا میں دس لاکھ اور 8 لاکھ مسلمان امریکہ میں رہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حلال مصنوعات کی عالمی تجارت کا سال 2010 میں کل حجم 635 ارب ڈالرز تھا۔ حلال مصنوعات کے ایک میگزین کے مطابق امریکہ حلال مارکیٹ کا حجم 17 ارب 60 کروڑ ڈالرز ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ امریکی معاشرے کے دیگر طبقے بھی حلال مصنوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کی وجہ سے غیر مسلم بھی اب حلال مصنوعات پسند کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں نصیب احمد سیفی کا کہنا تھا کہ مصنوعات سازوں کو حلال فوڈ تیار کرنے سے پہلے خوراک کے عام اجزاءاور ان کے ذرائع کے بارے میں جاننا چاہیے۔ یہ بھی جاننا ہوگا کہ امائینو ایسڈ ، حیواناتی چربی، پروٹین، رنگ، چٹنی اور دیگر کیمکلز کے اجزاءکیا ہیں اور ان کا کہاں سے تعلق ہے۔ حلال مصنوعات کی تیاری کے دوران یہ ضروری ہے کہ تمام غیر حلال ملاوٹیں اور اجزاءدور کردیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حلال مصنوعات دنیا کی فوڈ مارکیٹ کا تقریباً 16 فی صد ہیں۔ یورپ میں حلال فوڈ کی منڈی کا حجم 67 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ فرانس میں سال 2010 میں حلال مصنوعات کی مانگ 5 ارب 50 کروڑ یورو تک پہنچ گئی تھی۔ فرانس میں 50 لاکھ مسلم آبادی ہے جس کو لبھانے کے لئے ریسٹورینٹ مالکان اور پرچون کاروبار والے اپنے تئیں ہر کوشش کرتے ہیں۔ ایشیاءاور مشرق وسطی کے ممالک کی حکومتیں حلال فوڈ کی منڈی میں مقام بنانے کے لئے کروڑوں ڈالرز پانی کی طرح بہا رہی ہیں تاکہ ان ممالک کو حلال مصنوعات کے مراکز میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس وجہ سے مصنوعات سازی اور سپلائی چین میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سعوی عرب میں کھائے جانے والا زیادہ تر چکن برازیل میں پالا جا رہا ہے اور وہیں پر اچھے مذبح خانے بھی بنائے گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے مذبح خانوں سے دنیا میں سب سے حلال گوشت برآمد کیا جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کی کمپنیاں اب اپنا کاروبار ایران اور ملائشیاءمیں بھی پھیلا رہی ہیں۔ہالینڈ کی بندرگاہ روٹرڈیم حلال مصنوعات کی برآمدات کے لئے سہولیات قائم کر رہی ہے۔ برطانیہ اور کینیڈا کی ادویہ ساز کمپنیوں نے جیلاٹین سے پاک حلال وٹامنز کی فروخت شروع کر دی ہے۔ ملائشیاءکے سائنسدانوں گردن توڑ بخار کے تریاق کے لئے حلال ویکسین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا اسلامی ھوٹل دبئی میں قائم ہوا جس کا نام الجواہرہ تھا۔ اس کا انتظام و انصرام شریعت کے تحت چلنے والی کمپنی لوتاہ ھوٹل مینجمنٹ کمپنی کے پاس تھا۔ اس ھوٹل میں آنے والے گاہکوں میں سے 60 فی صد غیر مسلم ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کی کمپنی نیسلے نے تو اس سلسلے میں کمال کیا ہے۔ اس نے حلال کمیٹی 1980 کی دہائی میں قائم کی۔ اس نے حلال اور غیر حلال اشیاءکی الگ الگ جماعت بندی کی ہے۔جنوبی کوریا کی ایل جی اور فن لینڈ کی کمپنی نوکیا نے تو مسلمان صارفین کو لبھانے کے لئے مکہ کے رخ کا تعین کرنے میں مدد اور قرآنی تلاوت فراہم کرنا شروع کردی ہے۔