ٹوکیو کانفرنس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت بڑا جمپ ملے گا

ٹوکیو کانفرنس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت بڑا جمپ ملے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واشنگٹن (اظہر زمان، بیورو چیف) ٹوکیو میں اتوار کے روز ایک مرتبہ اور افغانستان کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ہورہی ہے جو یقینا افغانستان کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں نیٹو اور اس کے اتحادی ممالک 2014ءکے بعد کی صورت حال میں اسے ایک پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اپنے امدادی پروگرام کا جائزہ لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹوکیو کانفرنس پاکستان کیلئے کم اہم نہیں ہے کیونکہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے بعد پاکستان کا بین الاقوامی برادری میں جو تاثر بہتر ہوا ہے اور اس کی بین الاقوامی حکمت عملی کو جو قوت ملی ہے، وہ پاکستانی مندوبین کو دوسرے شرکاءسے انٹرایکشن میںزیادہ اعتماد فراہم کرے گی۔ امید ہے اس پس منظر میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کےزیادہ موثر کردار کو تسلیم کیا جائے گا۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات نیٹو سپلائی کی بندش سے گزشتہ سات ماہ کے دوران بداعتمادی کی جو نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے، وہ سپلائی کی بحالی سے اور خصوصاً ٹرانزٹ فیس نہ لینے کے فیصلے سے ایک اعتماد کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ بحالی کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر امریکی ہم منصب ہیلری کلنٹن اور نیٹو کے ارکان اور اتحادی ممالک کے لیڈروں سے براہ راست ملیں گی۔ اس لئے اس کانفرنس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے حوالے سے بہت بڑا ”جمپ“ ملے گا۔ اسلام آباد میں ایساف اور پاکستان کے فوجی کمانڈروں میں پاک افغان سرحد کے دونوں طرف دہشت گردی کے ٹھکانوں کے خاتمے کے لئے حال ہی میں جو تاریخی اتفاق رائے ہوا ہے، پاکستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کی براہ راست ملاقات میں اسے سیاسی توثیق حاصل ہوگی۔ پاکستان کی بھارت سے زیادہ مفاہمت ہورہی ہے اور دشمنی کی فضاءختم ہورہی ہے لیکن سیاسی حکمت عملی کے اعتبار سے پاکستان کا علاقائی قوتوں کے ساتھ مقابلہ بہرحال جاری ہے۔ افغانستان کے معاملات میں پاکستان نے اپنی ضرورت کے تحت ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے لیکن امریکہ سے کشیدگی کے بعد افغانستان پاکستان سے نالاں ہوا توبھارت نے اس خلاءکو پر کرنے کی کوشش کی۔ اس کا ایک مظاہرہ اس نے 28 جون کونئی دہلی کے تاج پیلس ہوٹل میں افغانستان میں غیر ملکی سرمایہکاری کی طرف راغب کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی کانفرنس بلا کر کیا۔ افغانستان نے بھارت کو یہ موقع فراہم کرکے یقینا پاکستان سے اپنے وعدے سے روگردانی کی جس کے مطابق یہ کام پاکستان کو سونپا جانا چاہئے تھا۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر اپنی کمزوری کے باعث پاکستان نے کھل کر احتجاج نہیں کیا۔ ٹوکیو کانفرنس پاکستان کو ایک سنہری موقع فراہم کررہی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے بہترامیج کو امریکہ، نیٹو اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ زیادہ بااعتماد تعلقات میں تبدیل کرلے۔ اس کانفرنس میں بھارت کو offend کے بغیر پاکستان کو بین الاقوامی برادری کےساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے معاملے میں ذرا زیادہ ”جارحانہ“ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی سیاست کے پاکستانی کھلاڑی یقینا اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ انتظامی معاملات میں جاپان کی بہت اچھی شہرت ہے۔ اس لئے یقینا یہ کانفرنس بہت منظم طریقے سے اپنا کام کرے گی۔ قبل ازیں 2002ءمیں ٹوکیو میں افغانستان کی تعمیر نو میں امداد کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی جاپان نے میزبانی کی تھی۔ دسمبر 2011ءمیں بون میں ہونے والے بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان نے امریکہ سے ناراضگی کے باعث شرکت نہیںکی تھی جسے بعض مبصرین نے ایک درست اقدام نہیں کیا تھا کیونکہ وہاں ہونے والے آئندہ دس سال کے لئے اقدامات سے پاکستان خود ہی الگ تھلگ ہوگیا۔ تاہم پاکستان نے امریکہ کے ساتھ کشیدہ فضا کے باوجود مئی 2012ءمیں شکاگو میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا دانشمندانہ فیصلہ کیا جہاں پاکستان جزوی طور پر بین الاقوامی منظر میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح شکاگو کانفرنس کے بعد ٹوکیوکانفرنس اس لحاظ سے پاکستان کے لئے بہت اہم ہے کہ یہاں پاکستان زیادہ اعتماد کے ساتھ افغانستان میں اپنے کردار پر زور دے سکتا ہے اور بین الاقوامی برادری کی شکایات دور کرنے کے بعد امریکہ سمیت تمام متعلقہ ممالک سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنا سکے گی۔ افغان جنگ اور دیگر اسباب کی بناءپر پاکستان معاشی اور سیکیورٹی مشکلات سے دوچار ہے۔ ٹوکیو کانفرنس پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے اور جوابی مثبت ردّعمل حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع فراہم کرے گا۔ ٹوکیو کانفرنس کی مشترکہ صدارت جاپانی وزیر خارجہ کوچیرو گمبا اور افغان وزیر خارجہ ڈاکٹر رسول اور افغان وزیر خزانہ ڈاکٹر ذاخل وال کریں گے جس میں ستر ممالک کے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے شرکت کررہے ہیں جو 2014ءمیں نیٹو کے انخلاءکے بعد افغانستان میں پائیدار امن اور ترقی کے قیام کا لائحہ عمل تیار کرے گی۔ اس کانفرنس میں علاقائی اقتصادی تعاون بھی زیر بحث آئے گا جس میں پاکستان کی شمولیت سے اسے اپنے اقتصادی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔اس کانفرنس کی سائیڈ لائن پر جاپان کی بین الاقوامی تعاون کی ایجنسی نے 6 جولائی کو ایک سمپوزیم منعقد کیا جس میں 2002ءکے بعد افغانستان کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ 7 جولائی کو اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے علاوہ افغانستان کی سول سوسائٹیز آرگنائزیشنز کے تحت افغان مہاجرین اور سول سوسائٹی کے حوالے سے الگ الگ سیمینار ہوئے۔

مزید :

صفحہ اول -