جنوبی چین کے سمندر میں انتشار

کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ فلپائن اور چین کے درمیان فاصلوں کا سبب بننے والا جنوبی چین کا جزیرہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دونوں اطراف کی تھوڑی سی کوشش کے بعد آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ اس معاملے کے سنجیدہ اثرات نہ صرف خطے کی سیاست، بلکہ عالمی طاقت کے بدلتے ہوئے انداز پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اس لئے یہ ناگزیر ہے کہ اس مسئلے کے حل میں مزید تاخیر کئے بغیر سنجیدہ کوششیں شروع کر دینی چاہیں، دونوں ممالک، یعنی چین اور فلپائن نے اپنے گرد موجود غیر آباد چٹانوں اور پانیوں کی ملکیت کے حوالے سے سخت پوزیشن لے رکھی ہیں، جس کو ماضی میں سکریب رق شوال اور آج کل ہینگ یان جزیرے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ فلپائن کا یہ دعویٰ ہے کہ سکریب رق شوال جو کہ لوزون سے135 ناٹیکل میل (250 کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے۔ وہ اس کے (فلپائن کے) 200 میل (321.86 کلومیٹر) معاشی زون کے اندر ہے، چین جبکہ دوسری طرف اس بات کے لئے دلائل دیتا ہے یہ تاریخی ہینگ یان چین کا حصہ ہے اور اس جانب اشارہ 13 ویں صدی عیسوی کے چینی نقشے میں ملتا ہے، لیکن ان دونوں ممالک کے دلائل کے سامنے مخالفانہ دلائل بھی ہیں۔ اگر شوال فلپائن کا حصہ ہے تو پھر چینی مبصر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پھر 1898ءمیں ہونے والا پیرس معاہدہ جس کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ، فلپائن کا مختار کُل تھا تو وہ اس کو اس طرح تسلیم کرتا ہے؟.... جبکہ دوسری جانب فلپائنی تجزیہ کار ہیں جو چین کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ 13 ویں صدی سے سینکڑوں سال قبل آج کے فلپائن کے باشندوں کے آباو¿ اجداد جو کہ انڈونیشین اور ملائیشین ہیں، اپنی سمندری مہارت کے حوالے سے مشہور تھے۔ وہ درحقیقت اس تمام خطے کے سمندروں کے مالک تھے اور اس میں وہ سمندر بھی شامل ہے، جسے آج جنوبی چین کا سمندر کہا جاتا ہے۔ فلپائن کی خواہش ہے کہ مسئلے کا حل بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہو، جس کی بنیاد سمندر کے قانون ہوں۔ چین اس بات کی بھرپو مخالفت کرتا ہے اور اس کا مو¿قف ہے کہ مسئلے کا حل دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے سے تلاش کیا جائے۔ اگرچہ دونوں اطراف معاملے کے حوالے سے بہت سنجیدہ نہیں ہیں، تاہم ان کی خواہش ہے کہ عسکری قوت کے اظہار سے گریز کیا جائے اور یہی بات ہمیں کچھ امید دلاتی ہے۔ کس قسم کا پُرامن حل دونوں اطراف کو مطمئن کرنے کے لئے کافی ہوگا؟
یہی وہ جگہ ہے جہاں پر جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (آسیان) جو کہ ایک ایسی تنظیم ہے، جس میں برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاو¿س، ملائشیائ، میانمر، فلپائن، سنگاپور،تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں، ان سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ آسیان اس بات کی تجویز دے سکتی ہے کہ آسیان اور چین دونوں اس مسئلے کے حل کے لئے ایسا فورم تشکیل دے سکیں، جس کے ذریعے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ مزید برآں آسیان چین فورم کے ذریعے جنوبی چین کے سمندر سے متعلقہ دیگر مسائل کا حل بھی تلاش کیا جائے، کیونکہ فلپائن کے علاوہ تین اور آسیان ممالک جن میں برونائی، ویت نام اور ملائیشیا شامل ہیں۔ وہ بھی جنوبی چین کے سمندر میں موجود جزیروں کی ملکیت کے حوالے سے دعوے دار ہیں اور ان تمام کیسوں میں مخالف پارٹی چین ہی ہے جو کہ اس حوالے سے دعوے دار ہے کہ جنوبی چین کے سمندر اور اس میں موجود جزیروں پر ملکیت کا حق صرف ایسے ہی حاصل ہے۔ ان جزیروں میں سے ایک جزیرہ یریکل بھی ہے اس کی ملکیت کے حوالے سے ویت نام بھی دعوے دار ہے۔ اب جبکہ اس معاملے میں چار آسیان ممالک شامل ہیں تو اس بات کا احتمال ہے کہ چین کے ساتھ خطے کی سالمیت کے حوالے سے کئی تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ آسیان چین فورم اس معاملے میں کسی اور ملک یا ادارے کو جس کا تعلق تجویز کردہ متاثرہ پارٹیوں کے علاوہ ہو، کو مداخلت کی اجازت نہ دے۔ ماضی میں چین کا رویہ اس خیال کے برعکس رہا ہے، لیکن اسے اب اس اصول کی پیروی کرنی چاہئے، ار اس حوالے سے آسیان اور چین دونوں ایک مشترکہ خیال کو اپنا لیں تویہ دونوں پارٹیوں کے لئے سُود مند ہوگا۔ اس کی دو وجوہ ہیں پہلی یہ کہ جنوبی چین کے سمندر کے بارے میں یہ یقین سے کہا جا رہا ہے کہ اس میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ اگرچہ اس کے باے میں اعداد و شمار مختلف لوگ مختلف انداز میں پیش کر رہے ہیں،لیکن یہ خطہ مستقبل میں معدنیات کی دولت کا اہم ذخیرہ ثابت ہوگا۔ بلا کسی شک و شبے کے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جنوبی چین کے سمندر کے وسیع ذخائر کو دیکھتے ہوئے نہ صرف یہاں کے باشندے ، بلکہ خطے کی دیگر طاقتیں بھی اس کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہیں تو کیوں نہ آسیان اور چین دونوں مل کر جنوبی چین کے سمندر کی دولت کو اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کریں۔ ملائیشیا نے اس سلسلے میں ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔ فروری 1979ءمیں ملائیشیا نے تھائی لینڈ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت خلیج تھائی لینڈ کے باہر سرحدی تنازع کو طے کیا گیا۔ اس طرح اس نے تھائی لینڈ کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے7250 مربع کلو میٹر کے علاقے جو کہ متنازع خلیج میں تھا۔ تیل وگیس کی تلاش کا کام شروع کر دیا اور یہ معاہدہ احسن انداز میں کام کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ اتھارٹی2007ءتک دریافت ہونے والی8.5 ٹریلین مکعب فٹ گیس اور 22 تیل کے کنوو¿ں کی نگرانی کر رہی ہے۔
دوسرا یہ کہ دونوں چین اور آسیان، اس بات سے با خبر ہیں کہ اگر شوال/ ہینگ یان کا تنازع مزید طول پکڑتا ہے اور اسی طرح کے تنازعات مستقبل قریب میں بھی جنم لیتے ہیں تو ایک فوجی سپر پاور جو کہ پہلے ہی جنوبی چین کے سمندر میں اپنے مفادات کا اعلان کر چکی ہے اور وہ اس کھیل میں براہ راست شریک ہونے سے بالکل نہیں ہچکچائی۔ چین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے درمیان عسکری انتشار آسیان کے لئے بھی خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور آسیان جن کے آپس میں معاشی تعلقات بہت گہرے ہو چکے ہیں اور وہ اتنے گہرے ہیں کہ اتنے فقید المثال تعلقات گزشتہ عشرے میں کبھی نہیں رہے ہیں تو انہیں اپنے تعلقات کو اس مقصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے ان مسائل کے خاتمے کے لئے کام کرنا چاہئے۔(بشکریہ”الجزیرہ آن لائن“.... ترجمہ: وقاص سعد) ٭