محمود خان اچکزئی کی شعلہ نوائی نے بلوچوں میں طوفان کھڑا کر دیا(2)
محمود خان اچکزئی نے اپنے جلسے میں اعلان کیا کہ وہ جرگہ بلا کر علیحدہ صوبے کا اعلان کریں گے۔ محمودخان اچکزئی نے پشتونوں کے حوالے سے جو مطالبہ کیاہے، اس کا خاص تاریخی پس منظر ہے۔ عبدالصمد خان اچکزئی شہید اور ولی خان میں جو اختلافات ہوئے، ان کا سبب بھی یہی ہے۔ آئیے ان تاریخی اختلافات کا جائزہ لیں....جب جنرل یحییٰ خان نے پورے ملک کے سیاست دانوں سے ملاقاتیں شروع کیں تو چھوٹے صوبوں کے قائدین نے یہ مطالبہ رکھا کہ ون یونٹ کو ختم کر دیا جائے اور صوبوں کو بحال کر دیا جائے۔ اس وقت پاکستان میں صوبہ سندھ، صوبہ پنجاب، صوبہ سرحد اور صوبہ مشرقی پاکستان موجود تھے، لیکن بلوچستان صوبہ نہیں تھا۔ اس کو کمشنری سسٹم کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ ریاست قلات، ریاست مکران، خاران اور لسبیلہ کو قلات ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا تھا اور تقسیم ہند سے قبل پشتون علاقوں میں مری، بگٹی کے علاقے شامل کر کے برٹش بلوچستان کے نام سے انتظامیہ کام کر رہی تھی۔
موجودہ بلوچستان میں پشتون علاقے ریاست قلات کے تحت نہیں تھے، ان کو تاج برطانیہ نے علیحدہ رکھا ہوا تھا، اس لئے جب کوئٹہ میں جنرل یحییٰ خان نے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا تو نیپ کا مو¿قف عبدالصمد خان سے مختلف تھا۔ ولی خان چاہتے تھے کہ جو صوبہ بننے چلا ہے، اس میں پشتون، بلوچوں کے ساتھ اکٹھے رہیں۔ اس تقسیم سے نیپ کو ملکی سطح پر نقصان ہو سکتا تھا، لیکن عبدالصمد خان کا مو¿قف مختلف تھا اور انہیں اپنے مو¿قف پر اصرار بھی تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے نیپ کے مرکزی سیکرٹری جنرل محمود علی قصوری کو خطوط بھی لکھے، ولی خان کو بھی خطوط لکھے اور اپنے مو¿قف کی وضاحت بھی کی، لیکن جنرل یحییٰ خان نے عبدالصمد خان شہید کے مو¿قف کو تسلیم نہ کیا، اس لئے اچکزئی تنہا ہوگئے تھے۔ ان کے موقف کی تائید میں کوئی بھی نہیں تھا اور وہ ولی خان سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی الگ پارٹی بنا لی۔
اب محمود خان اچکزئی اس پارٹی کے چیئرمین ہیںاور پارٹی پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے نام سے سیاست میں متحرک ہے۔ چونکہ برٹش بلوچستان میں پشتون علاقے کبھی بھی قلات اور دیگر ریاستوں کے تحت نہیں تھے، اس لئے عبدالصمد خان اس کو علیحدہ حیثیت دینا چاہتے تھے اور اسے پشتونستان کا نام دے کر صوبہ سرحد میں ملا دینا چاہتے تھے۔ پشتون، بلوچ اختلافات کا یہی پس منظر ہے۔ اب اس مو¿قف کو محمود خان لے کر چل رہے ہیں اور اُن کی پارٹی بڑی شد و مد سے جنوبی پشتون خوا کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس تاریخی پس منظر میں محمود خان اچکزئی کے مطالبات 25 جون کو جلسہ عام میں پیش کئے گئے۔ ان کے اس مطالبے اور تقریر کا ردعمل بلوچ قوم پرست پارٹیوں میں بڑا شدید ہوا ہے۔ آئیے اب اس ردعمل کا جائزہ لیتے ہیں....نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل طاہر بزنجو نے اپنے بیان میں کہا: پشتون اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں، ہمیں اعتراض نہیں ہوگا۔ پشتون سر زمین کو 1879ءمیں ایک معاہدے کے تحت برطانوی ہند میں شامل کیا گیا تھا، بعد میں بعض بلوچ علاقوں کو ساتھ ملا کر اسے برٹش بلوچستان بنا دیا گیا۔ پشتون بلوچستان میں رہنا چاہیں یا صوبہ خیبر پختونخوا میں جانا چاہیں، وہ خود فیصلہ کریں۔ خان آف قلات سلمان داو¿د نے کہا کہ پشتون الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اعتراض نہیں ہوگا، لیکن نقصان انہی کو ہوگا، کیونکہ بلوچ علاقے میں پشتونوں کا کاروبار زیادہ ہے۔ بلوچستان میں پشتون اور بلوچ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سردار اختر مینگل نے جو ان دنوں دبئی میں ہیں، اپنے بیان میں کہا: پشتونوں کے استحصال کی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہے، بلوچ نہیں۔ بلوچوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کرنے والی ایف سی میں اکثریت پشتونوں کی ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے، لیکن ہم گلہ نہیں کرتے۔ تاریخ کو کسی کی خواہش پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے کبھی پشتون علاقوں پر حق جتانے کی کوشش نہیں کی، لیکن بلوچ علاقوں پر کسی کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا۔ بلوچ اس وقت حالت جنگ میں ہےں۔ بلوچ کسی کے قرض دار نہیں ہیں۔ بلوچ اس وقت استحصال کا شکار ہیں۔ آڑے وقت میں بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کی جانب سے تقسیم کا نعرہ لگانے کی بجائے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلوچستان میں ماورائے قانون گرفتاریوں، مسخ شدہ لاشوں، جاری فوجی آپریشن اور مظالم کے خلاف بھرپور احتجاج کر کے اپنائیت کا احساس دلایا جاتا۔ کسی شاو¿نسٹ کی جانب سے بلوچستان کی تقسیم کا نعرہ لگایا جاتا تو کوئی غم نہ ہوتا، لیکن محمود خان اچکزئی، جو پونم کے سربراہ بھی ہیں، کی طرف سے تقسیم کے نعرے سے دُکھ ہوا ہے۔ پشتونوں کے استحصال میں بلوچوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر اُن کو شکوہ ہے تو انہیں اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب سے گلہ کرنا چاہئے، جو ذمہ دار ہےں۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے صدر محی الدین بلوچ نے کہا کہ پشتون خوا کا علاقہ جلو گیر موڑ سے شروع ہوتا ہے۔ اب تو بلوچوں کی لاشیں بھی پشتون علاقوں سے مل رہی ہیں، مگر ہم نے اس کا گلہ نہیں کیا۔ اب پشتون خوا الیکشن کی تیاریوں کے لئے پشتونوں کے دلوں میں بلوچ قوم کے خلاف نفرت پیدا کر کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ایجنڈے میں بلوچوں سے نفرت کے سوا اور کچھ نہیں۔ پشتون اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ وہ الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں یا افغانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کی مرضی ، مگر ایجنسیوں کے ذریعے بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی ناکام کوشش پر مجھے حیرت ہوئی ہے۔ پشتونوں کا علاقہ جلو گیر موڑ سے شروع ہوتا ہے.... (یہ علاقہ کوئٹہ سے شمال کی جانب کوئی20 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے)....وہاں سے بلوچوں اور پشتونوں کا باڈر شروع ہوتا ہے۔ ایسا ہی مو¿قف نواب خیر بخش خان مری کا ہے۔ پشتون25 فیصد ہیں، ان کی برابری کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ ان بلوچ قوم پرستوں کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اورنگ زیب کاسی نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ: ”جرگے کے ذریعے صوبوں کا فیصلہ کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے ۔ ہم صوبوں کی جغرافیائی اور تاریخی تشکیل چاہتے ہیں، لیکن پشتونوں کی جداگانہ حیثیت قبول نہیں۔
جمعیت العلمائے اسلام نظریاتی کے مرکزی نائب امیر کا کہنا تھا کہ اگر تو بلوچوں کی آبادی پشتونوں کے برابر ہے، پھر تو برابری کی بات کرنی چاہئے، بصورت دیگر ایسا نہیں ہو سکتا۔ پشتونخوا کا جلسہ تضادات کا مجموعہ تھا، برابری کی باتیں کرنے والے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں۔ ہم لسانی اور علاقائی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم نہیں چاہتے۔ پشتونوں کے حقوق کی بات کرنے والے بتائیں کہ بلوچستان میں پشتونوں کے کون سے حقوق سلب ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور مستعفی رکن سینٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صوبے میں پشتون بلوچ تنازع نہیں ہے۔ صوبے کے تمام حقیقی باشندے ظلم اور نا انصافی کا شکار ہیں۔ ہر ایک کو اپنی ترجمانی کا حق حاصل ہے، لیکن عوامی رائے کو ٹھوس بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے۔ عوامی مینڈیٹ ہونا چاہئے، اگر ایساہوتا ہے تو بلوچستانی عوام کو پشتونوں کے علیحدہ صوبے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لیکن صرف گروہی اور وقتی مفادات کے لئے پوائنٹ سکورنگ کو قومی مطالبہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ افغان مہاجرین کا ہماری سرزمین پر رہنے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں، انہیں اپنے وطن جانا چاہئے۔ صدیوں سے رہنے والی پشتون اور بلوچ قوموں، دیگر مقامی برادریوں کے مسائل اور مفادات مشترکہ ہیں۔مہم جوئی سے دوریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ بلوچستان میں پشتون بلوچ کشمکش موجود ہے اور وقتاً فوقتاً اس میں تیزی آتی رہتی ہے۔ اب چونکہ انتخابات کا مرحلہ سر پر ہے، اس لئے قوم پرست پارٹیاں اپنے دائرہ اثر کو پھیلانے کے لئے اس قسم کی سیاست کرتی رہتی ہیں۔ اس طرح بلوچ اور پشتون قوم پرست ان تضادات کو ابھار کر اپنا دائرہ اثر بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔(ختم شد) ٭