جمہوریت کے نام پر
پاکستان بھی دنیائے عالم میں ایک بے مثال ملک ہے۔ گزشتہ 65 سال میں ہر آنے والے حکمران نے کروڑوں عوام پر کون کون سا ظلم ہے جو نہیں ڈھایا، لیکن عوام ہیں کہ اب تک امید کا دامن چھوڑنے پر تیار نہیں۔ انگریزحکمرانوں کے خلاف حق رائے دہی کی بنیاد پر علیحدہ ملک حاصل کرنے کے بعد عوام کا یہی خیال تھا کہ پاکستان کا حصول جمہوری جدوجہد سے ہی ممکن ہوا ہے، اس لئے اب پاکستان میں اقتدار کی منزل بھی صرف جمہوری راستے ہی سے ممکن ہو گی، مگر ”اے بسا آرزو کہ خاک شد“ کا معاملہ ہوا اور قائد اعظمؒ کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کے اکابرین کی دلچسپی صرف اقتدار تک محدود ہو کر رہ گئی۔ جمہوریت اب نعرے کی صورت میں تو ملک میں موجود تھی، لیکن نہ اب حکمرانوں کو جمہوریت سے دلچسپی تھی اور نہ جمہوری طور طریقوں سے.... آخر کار نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا، یعنی فوجی آمریت....مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پہلے، فوجی حکمران نے بھی اقتدار سنبھالتے ہوئے جمہوریت کا ہی نعرہ لگایا اور عوام کو جمہوریت کے نام پر بنیادی جمہوریت کا تحفہ عطا کیا اور اس کے بعد تو جمہوریت کے نام پر حکمرانوں نے وہ وہ جمہوری تماشا ملک میں لگایا جس کی نہ کوئی حد ہے، نہ مثال۔
پرویز مشرف کے آٹھ سالہ اعصاب شکن دور حکومت کے بعد عام انتخابات کے حوالے سے ایک بار پھر پاکستان کے صابر عوام کے دل میں یہ خیالات آنے لگے تھے کہ ہمارے سابق سیاسی حکمرانوں نے شاید ذاتی اور اجتماعی تجربات سے کچھ سبق حاصل کر لئے ہوں اوراس بار حکومت کے حصول کے بعد شاید ان میں ذہنی تبدیلی واقع ہو جائے، لیکن نہ عوام کے خواب پورے ہوئے اور نہ ہی ان کا خیال درست ثابت ہوا....ہمارے سیاسی حکمرانوں کا خمیر ہی ایسا اٹھا ہے کہ نہ انہوں نے تاریخ سے کچھ سیکھنا ہے اور نہ ہی تجربات سے کچھ حاصل کرنا ہے۔ 24 مارچ 2008 ءکو یوسف رضا گیلانی کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے اور پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی مخالف جماعت مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی کابینہ میں شمولیت ایک ایسا لمحہ تھا، جب مَیں ذاتی طور پر بھی خوش گمانی کا شکار ہو گیا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید پاکستان کے عوام کی دعائیں رنگ لائی ہیں اور اب ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے، لیکن ہم تیرہ شبوں کے اندھیرے کہاں دور ہونے تھے، تھوڑے ہی دنوںمیں وہی فریب اور چالبازیوں کا کھیل شروع ہو گیا.... اور اس بار جمہوریت کے نام پر مفاہمت اور قانون کی بالادستی کے نعرے تشکیل دئیے گئے۔ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعویداروں نے مہنگائی کو ایک ایسے عفریت میں تبدیل کر دیا کہ جو اب کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ عوام کے پاس سوائے خود کشی کے اس عفریت سے نمٹنے کا اور کوئی علاج نہیں.... رہی لوڈشیڈنگ تو پہلے لوگ بجلی جانے کے شیڈول کو یاد رکھتے تھے اب بجلی آنے کی چند ساعتیں یاد رکھی جاتی ہیں۔
جمہوریت کے نام پر حکمران بننے والوں نے اس بار اپنے تو سارے خواب پورے کئے، لیکن عوام کی آنکھوں میں مستقل اندھیرے بھر دئیے.... کیسے کیسے خواب تھے، جو عوام نے دیکھے تھے، لیکن تمام خواب کچھ اس طرح بکھرے کہ اب مایوسی کے ساتھ ساتھ عوام پر جھنجھلاہٹ بھی طاری ہو گئی ۔آزاد اور خود مختار عدلیہ اور آزاد میڈیا کے حامیوں نے بھی عوام کو سہانے خواب دکھانے کا بڑا کام کیا تھا۔ بے نظیربھٹو کو اپنی قائد ماننے والوں نے حکمران بنتے ہی بے نظیر بھٹو کی اس خواہش وہ جناب چودھری افتخار کو اپنا چیف جسٹس مانتی ہیں اور ان کے گھر پر خود جھنڈا لہرائیں گی ، ماننے سے انکار کر دیا۔ آزاد عدلیہ کی تحریک میں خون دینے والے اور جان قربان کرنے والے جان نثاروں کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے حکمرانوں نے اپنا سب سے بڑا دشمن آزاد عدلیہ کو قرار دیا ۔آزاد عدلیہ کی تحریک اور میڈیا پر پابندی کے خلاف تحریک چلانے والوں نے ہی اب آزاد عدلیہ اور غیر جانبدار میڈیا کو جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن گردانا جمہوریت اور مفاہمت کے نام پر اس لیگ کو بھی گلے سے لگا لیا، جسے جذبات کی رو میں بہہ کر قاتل تک کہہ دیا تھا۔ 12 مئی کو آگ اور خون کا کھیل کھیلنے والوں کو بھی ساتھی بنایا اور جب پارلیمینٹ میں عددی اکثریت حاصل ہو گئی تو جمہوریت کے نام پر عوام سے وہ انتقام لیا گیا اور لیا جا رہاہے کہ الامان الحفیظ۔
یوسف رضا گیلانی کے اڈیالہ جیل اور ان کی کتاب ”چاہ یوسف سے صدا“ کے حوالے سے وزیر اعظم بننے پر بہت سے تجزیہ نگاروں کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ یوسف رضا گیلانی عوام کے دکھوں سے آگاہ ہیں، اس لئے ان کی حکومت میں عوام کی بنیادی پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ ذاتی شجرہ نسب اور فیس ویلیو کی بنیاد پر اسلام آباد میں میڈیا کے دوستوں نے یوسف رضا گیلانی کے حق میں تحریروں کے انبار لگا دئیے اور جب ابتداءمیں ذاتی واقفیت اور گزشتہ تجربات کی بنیاد پر مَیں نے لوگوں کو یوسف رضا گیلانی کی سیاست میں ابتداءسے ان کے کارنامے بیان کئے تو بہت سے دوستوں نے اسے ملتان دشمنی اور علاقائی تعصب قرار دیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ آصف علی زرداری نے وزیر اعظم کے عہدے پر یوسف رضا گیلانی کا انتخاب ہی اسی بنیاد پر کیا تھا کہ وہ ذاتی طور پر جانتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی حرص و ہوس میں آخری حد تک جا سکتے ہیں، اس لئے ایک ایسا وزیر اعظم جو نہ صرف خود، بلکہ اس کا پورا خاندان خواہشات کا غلام ہو، وہ نہ تو آصف علی زرداری کے لئے ذاتی طور پر اور نہ ہی سیاسی طور پر کسی خطرے کا باعث بن سکتا ہے اور ہوا بھی یہی....یوسف رضا گیلانی نے اپنی زندگی کے تمام رکے ہوئے ارمان پورے کئے۔ تمام زندگی قیمتی کپڑوں، جوتوں اور قیمتی گاڑیوں کے خواب صرف یوسف رضا گیلانی نے ہی پورے نہیں کئے، ان کے فرزندوں اور دیگر ہل خانہ نے بھی اپنی حسرتوں کی تکمیل کی۔
سیلاب زدگان کی مدد کے لئے آنے والی ہالی وڈ فلم سٹار انجلینا جولی بھی یوسف رضا گیلانی اور ان کے اہل خانہ کے کروفر اور پر تعیش رہائشی ماحول کو دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ ساڑھے چار سال ملکی اور غیر ملکی میڈیا یوسف رضا گیلانی اور ان کے اہل خانہ کے کارنامے بیان کرتا رہا، لیکن حسنی حسینی سید اور حضرت عبدالقادر گیلانی سے نسبت کا دعویٰ رکھنے والوں کو نہ شرم آئی اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی پشیمانی محسوس ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی کی یہ تمام کمزوریاں صدر آصف علی زرداری کے لئے تقویت کا باعث تھیں۔ یوسف رضا گیلانی کی بد عنوانیوں کے قصے آصف علی زرداری کے لئے غیر مرئی امداد بن رہے تھے۔ پاکستانی عوام اب ٹین پرسنٹ اور ہنڈرڈ پرسنٹ کے تمام قصے بھول چکے تھے۔ آئینی طاقت نہ ہونے کے باوجود آصف علی زرداری اپنے بد عنوان وزیر اعظم کی بدولت تمام طاقت کا مرکز تھے۔ اتحادی جماعتیں اور ان کی قیادت تو رہی ایک طرف خود وزیر اعظم کی کابینہ کے اراکین اپنے وزیر اعظم کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، اسی لئے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی سے نہ آصف علی زرداری کو بطور صدر مملکت کوئی پریشانی ہوئی اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کے طور پر کوئی سیاسی مسئلہ بنا۔
یوسف رضا گیلانی کے جانے کے بعد نئے وزیر اعظم کے انتخاب میں بھی صدر آصف علی زرداری نے اہلیت کا پیمانہ وہی رکھا، یعنی سیاسی طور پر کمزور شخصیت....ظاہر ہے جب معیار یہ ہو گا تو نہ مخدوم شہاب الدین، نہ احمد مختار اور نہ ہی قمر زمان کائرہ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ مخدوم شہاب احمد مختار اور قمر زمان کائرہ سیاسی طور پر مضبوط خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ویسے جناب شیخ رشید کہتے تو ٹھیک ہیں کہ صدر آصف علی زرداری سیاست کے سکول کے پرنسپل ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندانی ملبے سے بھی جان چھڑا لی اور آئندہ انتخابات میں بغیر کسی قیمت کے ایک مظلوم چہرہ بھی مل گیا۔ رہ گئے عوام تو ان کا مقدر ہی یہ ٹھہرا کہ وہ صرف اس بحث میں الجھے رہیں کہ جانے والا حکمران زیادہ بد عنوان تھا یا آنے والا حکمران زیادہ بد عنوان ہے؟ ویسے بھی جب ہم پر حکمرانی ہی کار ڈیلروں اور پراپرٹی ڈیلروں نے کرنی ہے تو پھر کیسے سیاسی اصول اور کون سے اخلاقی اصول؟.... جمہوریت کے نام پر مخدوم گیلانی گئے تو راجہ رینٹل آگئے۔ مفلس، نادار اور بزدل عوام.... اگر 65 سال سے ہر طرح کے حکمران برداشت کر رہے ہیں تو یہ سب بھی چلے گا کہ نہ پاکستان میں التحریر سکوائر ہے اور نہ بلند حوصلہ عوام تو پھر جمہوریت کے نام پر سو پیاز بھی کھانے پڑیں گے اور سو جوتے بھی۔ ٭