درِ زنداں کھلنے سے پہلے ۔۔۔مدّ برانہ فیصلوں کی ضرورت

درِ زنداں کھلنے سے پہلے ۔۔۔مدّ برانہ فیصلوں کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سزائیں میری جدوجہد کا راستہ نہیں روک سکتیں، مجھے متعدد بار مُلک چھوڑ کر لندن جانے کا کہا گیا، جو آئینی اور قانونی حقوق مجھے حاصل ہیں احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد وہ سب کے سب استعمال کروں گا،کلثوم نواز جیسے ہی ہوش میں آئیں تو اُن سے سلام دعا کر کے وطن لوٹ جاؤں گا، مریم نواز کا اصرار ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی وطن واپس جائیں،مَیں نے ان سے کہا ہے کہ وہ بعد میں آئیں،انہوں نے سوال کیا، کون تھے جنہوں نے ہمارے ارکان کی وفاداری تبدیل کرائی، پی ٹی آئی میں شامل کرایا، کون تھے وہ لوگ جنہوں نے بلوچستان میں ہماری حکومت تبدیل کرائی،کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے جیپ کے انتخابی نشانات الاٹ کرائے،جیپ کے نشان والے کون لوگ ہیں۔کیا محکمہ زراعت کے لوگ ٹکٹیں واپس کراتے ہیں، تشدد کرتے ہیں؟ مَیں لندن میں کوئی سیاسی پناہ نہیں لے رہا۔اُن کا عوام سے کہنا تھا 25جولائی کو ووٹ کی طاقت کے ذریعے ان زنجیروں کو توڑ دیں، جبر کے باوجود مسلم لیگ(ن) تمام جماعتوں سے آگے ہے اور2018ء کے انتخابات میں فتح حاصل کرے گی، ووٹ چوری کرنے والوں کے ہاتھ روکنے کے لئے واپس آ رہا ہوں، اگر ووٹ کی چوری روکنے کی قیمت جیل ہے تو یہ قیمت چکانے کے لئے آ رہا ہوں۔وہ لندن میں اپنے خلاف نیب عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف اگرچہ پہلے ہی انتخابی سیاست سے باہر ہو چکے،پارٹی صدارت بھی اُن کے بھائی شہباز شریف کو سنبھالنا پڑی،لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے اور وہی اسے متحرک رکھ سکتے ہیں،اُنہیں شکایت ہے کہ دباؤ ڈال کر اُن کی پارٹی کے لوگوں کو پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا۔انہوں نے بجا طور پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ راتوں رات جیپ کے نشان والے کہاں سے آ گئے۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُنہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ لندن میں رہیں یہ ساری باتیں انہوں نے اجمالی انداز میں کی ہیں اور قوم اُن سے اس کی تفصیل جاننا چاہتی ہے،اُنہیں جیل، جرمانے اور جائیداد کی ضبطی کی جو سزائیں سنائی گئی ہیں ان کے خلاف وہ قانون کی عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں اور اپنا مقدمہ وہاں تفصیل سے پیش کر کے عدالتی حکم کی صورت میں ریلیف حاصل کر سکتے ہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ نیب ان پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں کر سکا،استغاثہ کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکا، جس سے یہ ثابت ہو کہ لندن فلیٹس کرپشن کے پیسے سے خریدے گئے۔البتہ نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن(ر) صفدر بے نامی اثاثے اور خاندان کی طرف سے غیر ظاہر کردہ اثاثے رکھنے کے مرتکب پائے گئے، فیصلے میں فاضل جج نے یہ بھی لکھا ہے کہ فلیٹس کی ملکیت ثابت کرنا بھی مشکل ہے،کیونکہ یہ فلیٹس آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے گئے تھے۔ البتہ جج نے شریف فیملی کو امکانات کی بنیاد پر مجرم قرار دیا۔
عدالت نے نواز شریف اور فیملی کو کرپشن کے الزام سے بری کر دیا ہے، اب اُن کی جماعت کے لئے بہترین موقعہ ہے کہ وہ اِس معاملے کو عوام کی عدالت میں لے کر جائے اور اُنہیں بتائے کہ عدالت تو اُن کے لیڈر کو کرپشن کے الزام سے بری کر رہی ہے،لیکن اُن کے سیاسی مخالفین فیصلے کے حوالے سے کرپشن، کرپشن کا شور کِس بنیاد پر مچا رہے ہیں۔اگر وہ عوام کو یہ کیس اُن کی زبان میں سمجھانے میں کامیاب ہو گئی تو جماعت کو انتخاب میں اس کا فائدہ ہو گا۔لندن میں نواز شریف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اُنہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ لندن میں رہیں اور پاکستان نہ آئیں۔ یہ بات اُنہیں قوم کے سامنے وضاحت کے ساتھ رکھنی چاہئے کہ یہ مشورہ دینے والے کون تھے؟ اُن کی پارٹی کے اندر اُن کے خیر خواہ تھے یا ایسے لوگ تھے، جن کا اُن کی پارٹی سے تعلق تو نہیں،لیکن وہ ان کے خیر خواہ ہیں یا کوئی اور لوگ تھے جو انہیں اس قسم کے ’’سنہری اور قیمتی‘‘ مشورے دے رہے ہیں، جس میں اُن کو ’’فائدہ‘‘ ہے، ویسے تو اب اُنہیں ایسے مشورے دینے والے بھی بہت ہیں کہ اُن کی پارٹی نے پُرتشدد احتجاج کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا،بہت سے نام نہاد تجزیہ کار ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر اِس بات پر خود ہی افسوس ظاہر کر کے خود ہی اِس کا جواب دے رہے ہیں کہ پارٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ احتجاج کر سکے۔ ایسے مشوروں کو تو درخوراعتنا سمجھنے کی ضرورت نہیں تاہم اعلیٰ عدالتوں میں اپنا مقدمہ پوری تیاری سے لڑنا چاہئے،فیصلے کے اندر ایسے نکات بڑی تعداد میں موجود ہیں،جن کی بنیاد پر اعلیٰ عدالت میں کامیابی سے مقدمہ لڑا جا سکتا ہے اور امید ہے نواز شریف اِس سلسلے میں تمام آپشن استعمال کریں گے۔
عام انتخابات اب سترہ دن کی دوری پر ہیں اور بہت سے حلقوں میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی نااہلی کی وجہ سے متبادل امیدواروں کو میدان میں لانا پڑا ہے، اِس لئے آنے والے دِنوں میں نواز شریف جیل میں بھی ہوں اور اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف نہیں بھی نہ ملے تو بھی اُن کی جماعت اس ایشو کو عوام کے سامنے رکھ سکے گی۔بہت سے سوالات جو اِس وقت جواب طلب ہیں۔اگر تشنہ رہے تو مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم متاثر ہو سکتی ہے،اِس لئے اِس موقع پر نواز شریف کو سوچ بچار، تدبر اور تمام تر حالات کو پیشِ نظر رکھ کر واپسی کا فوری فیصلہ کر لینا چاہئے، ویسے بھی عدالتوں سے ریلیف اِسی صورت ملے گا جب وہ خود پیش ہوں گے،جو سزا اُنہیں سنائی جا چکی ہے یہ اگر قائم رہتی ہے تو اس کے اثرات تو بہرحال مرتب ہوں گے،لیکن اُنہیں ایک مدبر سیاست دان کی طرح فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے،اقتدار اب اُن کے پاس نہیں ہے، آئندہ اُن کے راستے میں قدم قدم پر رکاوٹیں موجود ہیں، جنہیں دور کرنا اُن کی اپنی کوشش سے ہی ممکن ہو گا۔ وہ اگر ہمت اور جرأت کے ساتھ بروقت درست فیصلے کریں گے تو نہ صرف اپنی پارٹی کا راستہ ہموار کریں گے،بلکہ مُلک و ملت کے لئے ایسی عزیمت کی مثال چھوڑ جائیں گے، جو آنے والی نسلوں کے لئے بھی مشعلِ راہ ہو گی، کسی بھی ڈر اور خوف کی بنیاد پر کنج عافیت میں بیٹھ رہنا اُن کے شایانِ شان نہیں ہو گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -