ڈاکٹر خیرات ابن رسا

ڈاکٹر خیرات ابن رسا
ڈاکٹر خیرات ابن رسا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم اور آرگینک کیمسٹری میں بین الاقوامی شہرت کے مالک ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا 93سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری کے عرصہ تک ڈائریکٹر رہے۔ چار سال تک بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلربنے۔ پھر دسمبر1976ء سے دسمبر 1984ء تک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے کام کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ الخیر یونیورسٹی اور کچھ عرصہ کے لئے لاہور لیڈیز یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔وہ اپنے شعبہ میں گراں قدر تحقیق کے علاوہ کیمسٹری کے مضمون پر بہت سی مقبول کتب کے مصنف بھی تھے۔پنجاب یونیورسٹی کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ ایک اچھے منتظم اور اچھے استاد تھے۔

تاہم پنجاب یونیورسٹی میں ان کو بہت سے سیاسی دباؤ بھی قبول کرنے پڑے۔ پنجاب یونیورسٹی14اکتوبر 1882ء میں قائم ہوئی تھی، اس طرح ڈاکٹر خیرات کی وائس چانسلری کے دوران ہی1982ء میں پنجاب یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات منائی گئیں۔ بہت سے سائنسی اور سماجی موضوعات پر بین الاقوامی تقریبات منعقد ہوئیں۔ سیاسی جلسوں ہلڑ بازیوں اور ہنگاموں سے آلودہ ماحول والے شہر لاہور کی فضاؤں نے اس دوران پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک عجیب پُرشکوہ منظر دیکھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ نے یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات مناتے ہوئے، مال روڈ پر واقع اپنے علامہ اقبالؒ کیمپس سے مینارِ پاکستان تک جلوس علمی نکالا۔ اساتذہ وائس چانسلر کی قیادت میں سیاہ گاؤن پہنے یونیورسٹی اور پاکستان کا علم لئے سڑکوں پر آئے۔ سٹرکوں کے دونوں طرف ہزاروں لوگ اس جلوس علمی کے استقبال کے لئے جمع تھے۔ لوگ جھولیاں بھر بھر کر پھول لا ئے تھے، جنہیں اس پرشکو ہ اور باوقار جلوس پر نچھاور کیا جا رہا تھا۔ جگہ جگہ پروفیسر حضرات کو پینے کے لئے مشروبات پیش کئے جا رہے تھے۔


علامہ اقبالؒ کیمپس سے مینارِ پاکستان تک سٹرکیں گلاب کی پتیوں سے سرخ ہورہی تھیں۔ سٹرک کے دونوں کناروں پر کھڑے بے شمار لوگوں کی آنکھوں سے رشک اور شکرانے کے آنسو بہہ رہے تھے۔ مینارِ پاکستان پر لاہور کارپوریشن کی طرف سے جلوس علمی کے شاندار استقبال کے لئے بینڈ کی دھنوں اور پُرتکلف چائے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ دن شہر لاہور، بلکہ پورے ملک کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا جب اساتذہ طلبہ و طالبات اور شہریان لاہور نے علم و تحقیق کا پرچم بلند کیا اور اس مقصد کے لئے اپنے عزم اور ارادوں کا اظہار کیا۔ صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی کی بین الاقوامی سائنس کانفرنس ایک یادگار کانفرنس تھی، جس میں دُنیا بھر کے درجنوں بلند پایہ سائنسدانوں نے شرکت کی۔

وائس چانسلر کی حیثیت سے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر خیرات ابن رسا کے وہ الفاظ پاکستان کی علمی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں جن میں انہوں نے کہا:”سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا ہمارے لئے چوائس کا معاملہ نہیں،بلکہ یہ ہماری ناگزیر ضرورت اور مجبوری ہے، کیونکہ روس، چین اور نڈیا جیسی سپر پاورز کی ہمسائیگی میں رہتے ہوئے ہم تھرڈ ریٹ قوم کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکتے، اور غلامی ہمیں منظور نہیں ہے۔ کروڑوں انسانوں کی گاڑی کو چند لوگ کھینچ کر ترقی کی منز ل کی جانب نہیں لے جاسکتے، اس کے لئے ہم میں سے ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنی صلاحیت کار میں اضافہ کرنا ہوگا“۔یونیورسٹی کے عظیم محقق اورمقبول استاد، ڈاکٹر وحید قریشی پرنسپل پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر دی گئی ایک دعوت کے موقع پر ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا نے ان کی علمی تحقیقی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہاں موجود نوجوان اساتذہ سے کہا کہ انہیں ڈاکٹر وحید قریشی کی عظیم شخصیت کو ایک ماڈل کے طور پر ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہئے، کوشش کرنی چاہئے کہ آئندہ کچھ برسوں میں تدریس و تحقیق کے میدان میں وہ بھی بتدریج ان کے مقام تک پہنچ جائیں۔


ڈاکٹر خیرات نے پنجاب یونیورسٹی میں معیار تعلیم بہتر کرنے اور تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لئے بہت سے اقدامات کئے۔ تاہم ان کی وائس چانسلری کے آخر ی کچھ برسوں میں یونیورسٹی اساتذ ہ اور طلبہ کی سیاست کا کچھ ایسا زور رہا کہ جس سے ان کی اچھی انتظامی صلاحیتیں دھندلا کر رہ گئیں۔ اس سے قبل اگر ان کے دفتر میں آنے والی تمام ڈاک اسی دن نکل جاتی تھی اور تمام فیصلے قواعد و ضوابظ کے مطابق ہوتے تھے،لیکن اس کے بعد ان کے انتظامی معاملات کا وہ معیار نہ رہا۔ تاہم انتہائی تلخ یونیورسٹی سیاست کے باوجود انہوں نے کچھ مصلحت سے اور کچھ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے یونیورسٹی انتظامات کو بہت تدبر سے سنبھالے رکھا۔انہوں نے پاکستانی نوجوانوں پر ہمیشہ یہ زور دیا کہ وہ تخلیق و تحقیق کے کاموں کے لئے محنت اور مشقت سے کام لیں اور وطن کا نام روشن کریں۔ وہ مستقبل میں اندرون ملک اور عالمی سطح پر درپیش بڑے چیلنجز اور سخت مقابلہ ومسابقت کی فضا کی طرف بھی نوجونواں کی توجہ مبذول کراتے تھے۔ڈاکڑ خیرات کی کیمسٹری پرکتابیں اردو بازار لاہور کے علمی کتب خانہ نے شائع کی تھیں۔

ایک موقع پر انہوں نے علمی کتب خانہ کے مالک حاجی سردار محمد سے سائنس اور سوشل سائنسز کے موضوعات پر شائع ہونے والی کتب کے متعلق پوچھا۔ حاجی صاحب نے سوشل سائنسز پر اپنے ہاں شائع ہونے والی دوسری کتابوں کے علاوہ میری کتب ”اردو کالم نویسی“ اور ”فیچر نگاری“ کا ذکر بھی کیا، اور بتایا کہ آپ کی یونیورسٹی ان کتب کو غیر معمولی تحقیق تسلیم کرتے ہوئے ان پر ایوارڈ ز دے چکی ہے۔اس پر ڈاکڑ خیرات نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ان دونوں کتب کے کچھ حصے پڑھ چکے ہیں یہ دونوں کتب حقیقی طور پر ایوارڈز کی مستحق ہیں۔ ان کتب پر یونیورسٹی نے پاکستان کے چوٹی کے صحافیوں کی آراء حاصل کرنے کے بعد مجھے ایوارڈز سے نوازا تھا، لیکن حاجی سردار محمد سے محترم وائس چانسلر کی یہ ذاتی رائے جاننا میرے لئے حقیقی معنی میں بہت بڑا اعزاز تھا جسے جاننے کے بعد میں عرصہ دراز تک اپنی تحریر و تحقیق کا ہر کام محنت اور خود اعتماد ی کے ساتھ کرتا رہا۔ اسی طرح ان کی ایسی ہی باتیں اَن گنت دوسرے نوجوانوں کے لئے عزم و حوصلہ کا باعث بنتی رہیں۔ ڈاکٹر خیرات نے کئی مواقع پر یہ بتایا تھا کہ وہ پاکستان میں سری نگر سے خالی ہاتھ آئے تھے۔ آج پاکستان کو علمی و تحقیقی میدان میں بہت کچھ دینے کے بعدڈاکٹر خیرات ابن رسا خالی ہاتھوں کے ساتھ اس دنیا سے جاچکے ہیں۔اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی زندگی اور جدو جہد ہمارے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔

مزید :

رائے -کالم -