اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 160

Jul 08, 2019 | 04:05 PM

حضرت شیخ ابو الربیع مالفیؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک شب شیخ ابی محمد سید ابن علی الفخارؒ کے ساتھ تھا اور میں ادباً جب تک آپ تہجد کے لیے کھڑے نہیں ہوجاتے تھے۔ اپنا وظیفہ نہیں شروع کرتا تھا۔ چنانچہ اس رات آپ بیدار ہوئے اور وضو کیا۔ میں اپنے بستر پر پڑا جاگ رہا تھا۔ آپ قبلہ کی طرف متوجہ ہوکر بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر اپنے وظیفہ میں تلاوت قرآن کرنے لگے۔
میں نے دیکھا کہ دیوار شق ہوئی اور اس میں سے ایک شخص نکلا جس کے ہاتھ میں ایک سفید شیستی تھی جس کے اندر شہد تھا۔ اور جب آپ قرآن پڑھنے کے لئے منہ کھولتے تھے تو وہ شخص آپ کو چٹاتا تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا اور اپنا وظیفہ چھوڑ کر اسی کے دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔ صبح کو میں نے آپ سے اپنا دیکھا ہوا قصہ بیان کیا۔ تو شیخ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا ”اے سلیمان بولو! یہ قرآن ک ی لطافت ہے۔“
٭٭٭

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 159 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت بکر بن عبداللہؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص ہمیشہ بادشاہ کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ اور ہر روز اس کے سامنے کھڑے ہوکر یہی الفاظ دوہرا تاکہ نیکوں کے ساتھ نیکی کرتے رہو اور بدوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، کہ ان کی بدکرداری بجائے خود اُن کے لئے کافی ہے اور اس کی اسی بات نے اسے بادشاہ کا منظور نظر بنا رکھا تھا۔
ایک حاسد کی رگ حسد جو پھڑکی تو اس نے بادشاہ کے کان میں یہ پھونک دیا کہ حضور! والا! آپ کا وہ منظو رنظر کہا کرتا ہے کہ بادشاہ کے منہ سے بدبو آتی ہے۔“
بادشاہ نے کہا ”تمہارے اس بیان کے صحیح ہونے کا کیا ثبوت ہے۔“
اس نے کہا کہ اب کے اسے اپنے ذرا قریب بٹھا کر دیکھ لیجئے تو ملاحظہ فرمائیے گا کہ وہ اپنے ناک پر ہاتھ رکھے رہے گا تاکہ بدبو سے بچا رہے۔
بادشاہ کے کان بھرنے کے بعد وہ حاسد اُس نیک آدمی کے پاس گیا اور اسے کھانا کھلایا۔ جس میں لہسن کی بو خاصی تیز تھی۔ اتنے میں بادشاہ نے اُسے بلوا بھیجا۔
اس مرد نیک نے اس خیال سے کہ لہسن کی بو بادشاہ تک نہ پہنچے، واقعی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ تب تو بادشاہ کو اس حاسد کی بات کا پورا یقین ہوگیا۔
اس بادشاہ کی عادت تھی کہ اپنے ہاتھ سے خلعت و انعام کا فرمان تحریر کرنے کے علاوہ کبھی کچھ نہ لکھتا تھا لیکن اس روز انتہائی غصہ کے تحت اپنے ایک عامل کو لکھا ”حامل فرمان ہذا کا سر کاٹ کر اور اس کی کھال میں بھس بھروا کر میرے پاس بھیج دو۔“
یہ حکم لکھ کر اس پر مہر ثبت کردی اور بند لفافہ اس مرد خدا کے حوالے کردیا۔ وہ بادشاہ سے رخصت ہوکر دربار سے باہر آیا تو حاسد نے پوچھا کہ تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟“
اس نے کہا کہ ”خلعت کا فرمان ہے۔“
حاسد نے کہا ”یہ مجھے دے دو کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔“
اس نے وہ فرمان حاسد کے ہاتھ میں دے دیا۔ حاسد اسے لیے ہوئے عامل کے پاس پہنچا۔ اس نے پڑھنے کے بعد کہا ”اس میں یہ حکم درج ہے کہ میں تمہارا سر قلم کر کے تمہاری کھال میں بھس بھروادوں۔“
حاسد نے کہا ”یہ مجھے دے دو کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔“
اس نے وہ فرمان حاسد کے ہاتھ میں دے دیا۔ حاسد اسے لیے ہوئے عامل کے پاس پہنچا۔ اس نے پڑھنے کے بعد کہا ”اس میں یہ حکم درج ہے کہ میں تمہارا سرقلم کرکے تمہاری کھال میں بھس بھروادوں۔“
حاسد نے کہا ”یہ حکم کسی اور کے لیے ہے۔ تم بے شک بادشاہ سے دوبارہ معلوم کروالو۔“
عامل نے کہا ”شاہی فرمان کی مکرر تصدیق نہیں کروایا کرتے۔“ یہ کہہ کر حاسد کا سرقلم کر دیا۔ وہ مرد نیک دوسرے دن حسب معمول بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکروہی الفاظ پھر ایک مرتبہ دوہرائے۔
بادشاہ اسے صحیح سلامت دیکھ کر بے حد متعجب ہوا اور پوچھا ”کہ وہ خط کہاں گیا؟“
اس نے جواب دیا ”فلاں شخص نے مجھ سے لے لیا تھا۔“
بادشاہ نے کہا ”یہ تو تم اُسی شخص کا کہہ رہے ہو کہ جس نے مجھے بتایا تھا کہ تم میرے خلاف یوں کہا کرتے ہو۔“
وہ بولا ”کہ میں نے کبھی ایسے الفاظ اپنے منہ سے نہیں نکالے۔“
بادشاہ نے کہا ”اگر تم نے نہیں کہے تھے تو پھر تمہیں اپنے منہ اور ناک پر ہاتھ رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔“
اس نے کہا ”اس لیے کہ اس حاسد نے مجھے کھانے میں اس قدر لہسن کھلا دیا تھا کہ خود میرے منہ سے بدبو آرہی تھی اور میں نے احتیاطاً اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔“
بادشاہ نے کہا کہ تو جوہر روز کہا کرتا ہے کہ بدکردار کے لیے اس کی بدکرداری ہی کافی رہتی ہے۔ آج واقعی دیکھ لیا کہ اس بدکردار کی بدی ہی اس کے سامنے آگئی۔
٭٭٭
حضرت ابو القاسم جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ ایک روز مجھے بدخوابی ہوئی۔ میں اپنا وظیفہ پورا کرنے کے قصد سے کھڑا ہوا تو اس میں ہمیشہ کی طرح حلاوت نہ پائی۔ پھر سونے کا قصد کیا، نیند نہ آئی۔ اُٹھ بیٹھا تو بیٹھا بھی نہ گیا۔ دروازہ کھول کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ اپنی عبا میں لپٹے ہوئے راستہ میں پڑے ہیں۔
میری آہٹ سن کر انہوں نے سر اٹھایا اور کہا کہ اے ابوالقاسم! تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس آجاﺅ۔
میں نے کہا ”جناب بغیر کسی اطلاع ہی کے۔“
کہا ”ہاں۔“ میں نے اللہ محرک القلوب سے سوال کیا تھا کہ تمہارے قلب کو میری جانب حرکت دے۔“
میں نے کہا”یہ تو اللہ نے کیا لیکن آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟“
بولا ”نفس کی بیماری کسی وقت خود ہی علاج بن جاتی ہے۔“
میں نے کہا ”جب نفس اپنی خواہشات کی مخالفت کرنے لگتا ہے۔ تو اس کی بیماری خود ہی دور ہوجاتی ہے۔“
پھر انہوں نے نفس کی طرف متوجہ ہوکر کہا ”سن میں نے سات مرتبہ تجھے یہی جواب دیا تھا اور تو نے نہ مانا اور جنیدؒ ہی سے سننے کا قصد کیا۔ اب تو تُو نے اُن سے بھی سن لیا۔“
پھر وہ چلے گئے۔ مَیں نہ اُن سے واقف تھا، نہ میں نے اُنہیں پہچانا۔“
٭٭٭
ایک روز آدھی رات گئے ایک مقام پر ستر آدمی جمع تھے۔ دوران گفت گو حضرات خواجہ عثمان ہاردنیؒ کی کرامت کا تذکرہ ہوا۔
ان میں سے ایک شخص بولا کہ ہم تو ان کی کرامت کے جب قائل ہوں کہ وہ ہم ستر آدمیوں کو حسب خواہش کھانا کھلوائیں۔ یعنی جو کھانا ہم اپنے دل میں سوچیں وہی پائیں۔
سب نے کہا کہ بس اسی بات پر رہو اور چلو ان کو آزمالو۔ وہاں سے اُٹھ کر وہ سب کے سب حضرت خواجہؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا۔
واللہ یہھدی من یشاءالی صراط مستقیم پھر ان سب کو اپنے پاس بٹھا کر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی اور اپنے دونوں دست مبارک آسمان کی جانب اُٹھائے اور خداوند تعالیٰ سے رجوع کیا۔ اُسی وقت ایک خوان کھانوں کا جس میں ستر قسم کے کھانے ہر ایک کی حسب خواہش موجود تھے غیب سے نمودار ہوا۔ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر ہر ایک دل و جان سے آپ کا مرید ہوگیا۔
٭٭٭
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا مرید ہونے کے لئے دہلی سے پاک پٹن (اجودھن) روانہ ہوا۔ راستہ میں ایک فاحشہ عورت سے ملاقات ہوئی تو اس کی نیت میں فتور آگیا لیکن آپ کی بصیرت نے اپنے ہونے والے مرید کو گناہ سے بچالیا۔
غیب سے اچانک ایک ہاتھ نمودار ہوا اور اس شخص کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور ساتھ ہی آواز آئی۔ ”فرید کے مرید ہونے کی نیت ہے اور ارادہ گنا ہ کا کرتا ہے۔“
جب وہ شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا ”دیکھو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس روز کتنی بڑی مصیبت سے بچالیا۔“(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 161 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں