حالیہ فرقہ واریت کی آماجگاہ؟
ہر سال جوں ہی محرم الحرام کی آمد قریب ہوتی ہے، سرکاری سطح پر ”امن کمیٹیوں“ کے اجلاس شروع ہو جاتے ہیں۔ علماء و خطباء کی فہرستیں، جھاڑ پونچھ کر تیار کی جانے لگتی ہیں (اکثر یہ فہرستیں پرانی ہی ہوتی ہیں اور غیر مصدقہ کہ کئی مرحومین بھی ان میں نظر آتے ہیں اور بعض اوقات ہم جیسے روا داری و باہمی احترام کی بات کرنے والوں کو بھی محض کسی اور کے نام سے مشابہت کے باعث شامل کر دیا جاتا ہے)۔
اس سال سرکاری کارندوں سے پہلے پاکستان میں ”فرقہ ورانہ فسادات“ پھیلانے والے دشمنوں نے،اپنی کارستانی کر دکھائی ہے کہ ایک نامعلوم فرد کی طرف سے، ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر عام کر دیا ہے،جس میں وہ بدبخت، عالم اسلام کی ایک عظیم ترین ہستی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بدزبانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات وہ ہے کہ جس کو رسول پاک ﷺ نے ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ اسی لئے تمام اسلامی مکاتب فکر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں کوئی برائے نام مسلمان بھی آپؓ کی شان والا صفات سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتا کہ اس طرح اس کا منافق وغیرمومن ہونا واضح اور ثابت ہو جائے گا۔
سوشل میڈیا سے اس بدبختی کا پتہ چلتے ہی ہر مسلمان اس گستاخی پر سراپا احتجاج ہو گیا، ہر ایک نے اپنی اپنی حیثیت میں اس پر آواز بلند کی (اور کرنی بھی چاہئے تھی کہ یہ ایمان کا تقاضا تھا اور ہے)
ہر طرف سے مطالبہ زور پکڑ گیا کہ یہ بدبخت ہے کون؟ اس کو قرار واقعی سزا دی جائے اور عبرت کا نشان بنا دیا جائے …… مگر پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ ہے کون؟ ایک پروپیگنڈا ہو ا کہ ”اس بدبخت کا نام“ اذان الٰہی“ ہے اور یہ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کا بھانجا اور شاگرد ہے۔“ جب یہ بات علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور ان کے برادران احباب تک پہنچی تو انہوں نے پرزور تردید کی کہ ہم اس بدبخت و گستاخ کو جانتے تک نہیں یہ کوئی بھی ہو، اس نے گستاخی کی ہے اس کو نشان عبرت بنا دیا جائے“۔
ان کی طرف سے اس اعلان برأت اور پر زور مطالبہ کے بعد سنا گیا کہ یہ ”بدبخت و گستاخ عبدالرحمن سلفی“ کہلاتا ہے…………
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ گستاخ ایک نوجوان ہے، جبکہ عبدالرحمن سلفی نام کے ایک نیک خو، نیک نام بزرگ ہیں جو جماعت غرباء اہل حدیث کے امام ہیں، کراچی میں رہتے ہیں قریباً نوے سال کی عمر میں ہیں اور اس وقت بستر علالت پر ہیں۔ دوسرے یہ کہ حضرت مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی کو تمام مکاتب فکر کے زعماء عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ……
محض نام کی مناسبت سے بعض جذباتی لوگوں نے اس نیک انسان کی طرف انگلیاں اٹھانے کی جسارت تک کر دی۔ اس مرحلے پر ہمیں، چند سال قبل کی اپنی حالت یاد آ گئی کہ جب پسرور کی معروف تنظیم کے ایک ذمہ دار مولوی شفیق ڈوگر صاحب کے نام کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا“ ضلع نارووال میں ان پر پابندی لگی نام میرا آ گیا، انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سمن جاری ہوئے اور پہنچ میرے پتہ پر گئے۔ ایک بار پولیس ان کی گرفتاری کے لئے میرے گھر پہنچ گئی۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے کہ اخبارات و جرائد میں نام میرا مشہور ہے۔ اس طرح بعض جگہ مولانا محمد یوسف پسروری کے نام کیمشابہت کا بھگتان بھی مجھے بھگتنا پڑتا ہے۔نام کی اس مشابہت کی وجہ سے شیخ القرآن و الحدیث مولانا عبدالرحمن سلفی اور علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کو جو ذہنی کوفت اٹھانی پڑی اس کا اندازہ ہر کوئی نہیں کر سکتا، بہرحال یہ شکر کا مقام ہے کہ شیعہ زعماء نے بھی اس سازش کو بھانپ لیا کہ اس میں کوئی مسلمہ و مقتدر عالم دین ملوث نہیں، لیکن کائنات کی عظیم ہستیوں کے گستاخ کو ہرحال میں قرار واقعی سزا دلانے کا مطالبہ اپنی جگہ قائم تھا اور ہے۔ لیکن پتہ نہیں چل پا رہا تھا کہ ”بدبخت گستاخ“ ہے کون؟
گزشتہ روز میں نے تحریک اسلامی (تحریک نفاذ فقہ جعفریہ) کے سیکرٹری جنرل حضرت علامہ عارف حسین واحدی (جو مجلس عمل اور نظریاتی کونسل میں ہمارے ساتھی رہے ہیں) سے عرض کیا کہ اس بدبخت کی فوٹو ہی مجھے ارسال فرما دیں۔ انہوں نے جو تصویر بھیجی اس میں جو پس منظر ہے، وہ کسی ایسی جگہ کی ہے جہاں ”وارنسی (بنارس)“ لکھا بورڈ نظر آ رہا ہے۔ ویسے بھی یہ شخص صاف بھارتی دکھائی دیتا ہے اوپر سے وارنسی(بنارس) کا بورڈ، یعنی پاکستان میں محرم الحرام کے آنے سے قبل ہی فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا کرنے اور پھر پورا محرم، اس کے باعث تلخی و تشدد کی فضا میں لانے کی سازش کی اصل آماجگاہ بھارت ہے۔
اس سے پہلے بھی ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ بال ٹھاکرے سے لے کر موجودہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا تک، پاکستان میں فرقہ واریت کے ذریعہ انتشار پھیلانے کی باتیں کرتے رہے ہیں، اسی طرح ”اجیت اگروال“نامی شخصجو بھارت کی خفیہ ایجنسی کا اعلیٰ افسر ہے اور کئی سال بہروپ بھر کر پاکستان میں رہنے کا دعوے دار ہے۔ ”باقاعدہ فرقہ واریت“ کے بھارتی حربے بیان کرتا رہتا ہے۔
کوئی بھی شخص جو اسلام اور پاکستان سے مخلص ہے، وہ فرقہ واریت کو کسی طور پسند نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی ایسے فرد کو قبول کر سکتا ہے، جو کسی مسلک کے نام پر فرقہ ورانہ تلخی کو بڑھاوا دیتا ہو۔ اگر کوئی شخص تلخی و انتشار کو پسند کرتا ہے تو جان لیجئے وہ اسلام اور پاکستان سے مخلص نہیں اور وہ ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو بڑھاوا دے رہا ہے۔