بٹوارہ ہوا تو کے کے اور پران کو افراتفری میں لاہور چھوڑنا پڑا۔ ”اب نہیں تو کل مرو گی، مرنا بہر حال تمہیں مجھ پر ہی ہے“ (سعادت حسن منٹو کی یادگار تحریر )

قسط: 2
میں ان کی گفتگو، جو مجھے مکمل طور پریاد ہے، یہاں نقل کرنا نہیں چاہتا، اس لیے کہ وہ بہت بے باک تھی۔ ویسے اس کی روح اپنے لفظوں میں بیان کیے دیتا ہوں۔ شیام کبھی سنجیدگی سے بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے ہر لفظ میں ایک قہقہہ ہوتا تھا۔ اس نے کلدیپ سے اسی مخصوص انداز میں کہا، ”جان من! اس الو کے پٹھے پر ان کو چھوڑو اور میرے ساتھ ناطہ جوڑو۔ وہ میرا دوست ہے لیکن یہ معاملہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے۔“
کلدیپ کور کی آنکھیں اس کی ناک کی طرح بڑی اور تیکھی ہیں۔ اس کا لب دہان بھی بڑا تیکھا ہے۔ اس کے چہرے کا ہر خدوخال تیکھا ہے، جب وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپکا کر بات کرتی ہے تو آدمی بوکھلا جاتا ہے کہ یہ کیا مصیبت ہے۔
اس نے تیز تیز نگاہوں سے شیام کی طرف دیکھا اور اس سے زیادہ تیز لہجے میں اس سے کہا، ”منہ دھو کر رکھیے شیام صاحب“ شیام پرعورتوں کی تیز گفتاری کا بھلا کیا اثر ہوتا، اس نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا، ”کے کے میری جان! تم لاہور میں مجھ پر مرتی تھیں، یاد نہیں تمہیں۔“
اب کلدیپ کور نے قہقہہ لگایا جس میں نسوانی طنز بھرا تھا، ”آپ کوو ہم ہوگیا تھا۔“
شیام نے کہا، ”تم غلط کہتی ہو، تم مجھ پر مرتی ہو۔“
میں نے کلدیپ کی طرف دیکھا اور مجھے محسوس ہوا کہ اس کے جسم پر سپردگی کی خواہش ہے مگر اس کا ہٹیلا دماغ اس کی اس خواہش کو رد کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی تیکھی پلکیں پھڑپھڑا کر کہا، ”مرتی تھی لیکن اب میں نہیں مروں گی۔“
شیام نے اسی لاابالیانہ انداز میں کہا، ”اب نہیں مرو گی تو کل مرو گی۔ مرنا بہر حال تمہیں مجھ پر ہی ہے۔“
کلدیپ کور بھنا گئی، ”شیام تم مجھ سے آج آخری بار سن لو کہ تمہارا میرا کوئی سلسلہ نہیں ہوسکتا۔ تم اتراتے ہو۔ ہوسکتا ہے لاہور میں کبھی میری طبیعت تم پر آئی ہو لیکن جب تم نے بے رخی برتی تو میں کیوں تمہیں منہ لگاؤں۔ اب اس قصہ کو ختم کرو۔“
قصہ ختم ہوگیا۔ صرف وقتی طور پر کیونکہ شیام زیادہ بحث کا عادی نہیں تھا، کلدیپ کور اٹاری کے ایک مشہورو معروف اور مالدار سکھ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، اس کا ایک فرد لاہور کی ایک مشہور مسلمان عورت سے منسلک ہے جس کو اس نے لاکھوں روپے دیے اور سنا ہے کہ اب بھی دیتا ہے۔یہ مسلمان عورت کسی زمانے میں یقیناً خوبصورت ہوگی مگر اب موٹی اوربھدی ہوگئی ہے مگر وہ اٹاری کے سکھ حضرات اب بھی باقاعدہ یہاں لاہور میں فلیٹی ہوٹل میں آتے ہیں اور اپنی مسلمان محبوبہ کے ساتھ چند روز گزار کرواپس چلے جاتے ہیں۔
جب بٹوارہ ہوا تو کلدیپ کور اور پران کو افراتفری میں لاہور چھوڑنا پڑا۔ پران کی موٹر (جو غالباً کلدیپ کور کی ملکیت تھی) یہیں رہ گئی لیکن کلدیپ کور ایک باہمت عورت ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مردوں کو اپنی انگلیوں پر نچا سکتی ہے۔ اس کے لیے وہ کچھ دیر کے بعد لاہور آئی اور فسادات کے دوران میں یہ موٹر خود چلا کربمبئی لے گئی۔
جب میں نے موٹر دیکھی اور پران سے پوچھا کہ یہ کب خریدی گئی ہے تو اس نے مجھے سارا واقعہ سنایا کہ کے کے لاہور سے لے کر آئی ہے اور یہ کہ راستے میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، ایک صرف دہلی میں اسے چند روز ٹھہرنا پڑا کہ ایک گڑ بڑ ہوگئی تھی۔ یہ گڑ بڑ کیا تھی، اس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ ( جاری ہے )
"لاؤڈ سپیکر " سے اقتباس