شکاگو کے مسلمانوں کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹا نے کا کام شروع ہو چکا تھا، متزلزل ایمان کے لوگوں کو نفرت پر ابھارا جانے لگا

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:138
اپریل 1963ء میں ایلیا محمد نے مجھے ملاقات کے لیے فی نکس بلوایا۔ ہم حسب روایت گلے ملے اور وہ مجھے فوراً باہر تیراکی کے تالاب کے کنارے لے گئے اور چہل قدمی کرنے لگے۔
وہ میرے مذہبی رہنما تھے اور میں ایک گمراہ، گناہ گار مجرم تھا۔ میں اتنا برا تھا کہ دوسرے مجرم بھی مجھے شیطان کہتے تھے۔ اس شخص نے مجھے بچایا تھا، مجھے پر لگا دیئے جن سے میں وہاں وہاں پہنچا وہ وہ کام کیے جو میرے تصور میں بھی نہیں تھے۔ میں جذبات کے گرد باد میں چکر کھاتا ان کے ساتھ چل رہا تھا۔
”جی بیٹے!“ ایلیا محمد نے مجھ سے کہا”کیا سوچ رہے ہو؟“
میں نے بغیر لگی لپٹی کے سب کچھ ان کے آگے رکھ دیا اور ان کے جواب سے قبل یہ بھی بتا دیا کہ میں نے اور والس نے بائبل اور قرآن سے ایسے حوالے تلاش کیے ہیں جو مسلمانوں کو بتائے جانے چاہئیں اگر یہ ضروری ہو تو۔
”بیٹے، مجھے تمہاری بات پر حیرانی نہیں ہوئی“ جناب ایلیا محمد نے کہا۔”تم ہمیشہ سے مذہبی قیادت اور دیگر روحانی معاملات کافی بہتر سمجھتے ہو۔ تم پہچان سکتے ہو کہ یہ سب کچھ۔۔۔ تم وہ سمجھ رکھتے ہو جو بڑھاپے کو پہنچ کر ہی حاصل ہوتی ہے۔
انہوں نے بھی وہی خرافات اُگلیں جو ان کے بیٹے والس محمد نے مذہبی کتب سے حوالے ڈھونڈتے ہوئے بکی تھیں۔
میں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی ساحل(East Coast) کے6 منتخب مسلمان افسران کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جائے۔ میں نے انہیں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ میں نے انہیں اس لیے بتایا ہے کہ وہ مساجد میں مسلمانوں کو تعلیم دینا اپنا فرض بنا لیں کہ یہ ”تکمیل قیادت“ کی کڑی ہے۔ مجھے علم ہوا کہ وہ مسلمان افسران پہلے سے سب کچھ سن چکے ہیں۔ ان میں سے وزیر لوئی ایکس جو بوسٹن سے تھا7 ماہ پہلے سے آگاہ چلا آتا تھا اور وہ سب کشمکش میں تھے۔
میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ شکاگو کے مسلمان افسران میری کوششوں کو جلتی پر تیل ڈالنے کا نام دیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ مجھے اس وباء کے آغاز کا باعث بھی قرار دیں گے۔ شکاگو کے مسلمانوں کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹا کر مجھ پر مرتکز کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔ متزلزل ایمان کے لوگوں کو میرے خلاف نفرت پر ابھارا جانے لگا۔
مجھے اچھی طرح جاننے والے غیر مسلم نیگروز اور چند قریبی سفید فام صحافی مجھے مسلسل تلقین کر رہے تھے کہ”میلکم ایکس! تم بہت تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہو۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔“
ان میں سے کچھ تو واقعی مخلص اور بے لوث تھے۔ انہی میں سے ایک سفید فام نے جس کا نام میں نہیں لے سکتا مبادا اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیں، مجھ سے کہا کہ ”میلکم ایکس، نیگروز سے کہیں زیادہ سفید فاموں کو تمہاری ضرورت ہے۔“ یہ جملہ مجھے اس لیے یاد رہ گیا کیونکہ میں نے پہلی بار کسی سفید فام سے قوم اسلام سے ہٹ کر بات کی تھی۔
یونہی باتوں باتوں میں اس نے بحرمردار کی دستاویزات کا ذکر چھیڑ دیا جس پر میں نے کہا ”ہاں وہ مخطوطے حضرت عیسیٰؑ کے سفید ہونے کے تاثر کو بدل دیں گے اور انہیں اس Main Stream میں شامل کریں گے جہاں وہ ایک غیر سفید فام کے طور پر پہچانے جائیں گے“ یہ سن کر وہ صحافی بے حد حیران ہوا جس پر میں نے اس سے کہا کہ ”عیسیٰؑ“ مصری Seers کی برادری سے تھے جس کا ذکر مشہور مصری مورخ”فی لو“ نے بھی کیا ہے جو حضرت عیسیٰؑ کا ہم عصر تھا۔ اس کے بعد ہم کوئی 2گھنٹے تک آثار قدیمہ، تاریخ اور مذہب پر باتیں کرتے رہے۔ گفتگو اتنی خوشگوار تھی کہ کچھ دیر کے لیے تمام پریشانیاں میرے ذہن سے محو ہوگئیں۔ ہماری گفتگو اس نکتہ پر منتج ہوئی کہ سن2000ء تک مکتب جانے والے ہر بچے کو دور قدیم کے عظیم لوگوں کی درست رنگت کے بارے ضرور پڑھایا جائے۔
ڈیلاس ٹیکساس میں 22 نومبر 1963ء کو ہونے والے قتل کی یاد دہانی ضروری نہیں ہے۔ اس قتل کے چند گھنٹوں بعد ہی مسلم وزراء کو جناب ایلیا محمد کی طرف سے 2 ڈائریکٹوز(Directives) موصول ہوئے جن میں جناب ایلیا محمد نے ہدایت کی تھی کہ قتل کے متعلق بیان ہر گز نہ دیا جائے اگر بہت مجبور کیا جائے تو ”بلاتبصرہ“(Nocomments)کہہ دیا جائے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔