میرا ایک خوشگوار تجربہ
زندگی میں مجھے اکثر اوقات بہت ہی خوشگوار واقعات و تجربات سے واسطہ پڑا ہے۔ یادوں کے دریچے وا کرتا ہوں تو بہت سی باتیں، ابھی کل کی معلوم ہوتی ہیں اور میں اس مشہور زمانہ شعر سے متفق نہیں ہو پاتا کہ:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب!
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
موضع باگڑیاں دھرم چند میں، جہاں پر جویہ برادری کی اکثریت آباد تھی مگر نمبرداری کمہاروں کے پاس تھی۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں پر میو برادری کے کچھ افراد بھی زمینیں الاٹ کراکے رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سے تقریباً 35,40 برس کے دوران اس آبادی کی اکثریت کا پیشہ اور ذریعہ معاش دیسی شراب کشید کرنے کا رہا۔ اور یہیں سے دیسی شراب جم خانہ کلب میں اور بہت سے بڑے چھوٹے ہوٹلوں اور معززین شہر میں سپلائی ہوتی رہی لیکن جب آبادی بڑھی اور یہ موضع ہاﺅسنگ سکیموں کی زد میں آگیا۔ تویہی شراب کشید کرنے والے بڑے بڑے پراپرٹی ڈیلر بن گئے۔ میرے دو واقف کار بھی ان میں شامل تھے۔ ایک کا نام جماعت علی عرف بھولا اور دوسرے کا میاں اظہر لطیف ہے۔ یہ دونوں شراکت داری میں پراپرٹی کا کام کرنے لگے۔
میاں اظہر کچھ پڑھا لکھا تھا اس کا تعلق ارائیں برادری سے تھا، وہ پہلے سے پراپرٹی ڈیلر کا کام کرتا آ رہا تھا۔ جماعت علی عرف بھولا ان پڑھ تھا لیکن اس کی دھونس چلتی تھی۔ اس لئے کہ بابا ولی محمد جویہ جو کہ اس علاقے کا نامی گرامی بدمعاش تھا، وہ اس کا عزیز تھا۔ اکثر اوقات بابا ولی محمد اپنے بھتیجے جماعت علی بھولا کو کہتا کہ ”جاﺅ! فلاں غریب کمہار کو دس جوتے مار کے آﺅ!“ اور وہ اپنے تایا کی تابعداری کرتے ہوئے حکم بجا لاتا اور کسی کمہار کو خواہ مخواہ ہی دس جوتے مار آتا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں بابا ولی محمد اور باگڑیاں کے سارے شراب فروشوں اور شراب کشید کرنے والے بدمعاشوں کو کوڑے بھی پڑے۔ گزشتہ دنوں بابا ولی محمد کی وفات ہوئی تو تمام سیاسی پارٹیوں کے اکابرین اور ڈی آئی جی تک کے عہدے کے پولیس افسروں نے اس کے جنازے میں شرکت کی۔ بابا ولی محمد میری بڑی عزت کرتا تھا خاص کر میری جرا¿تِ اظہار کی وجہ سے مگر میں اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوا۔
جماعت علی بھولا اور میاں اظہر لطیف کی پراپرٹی ڈیلر کے طور پر پارٹنر شپ خوب چلتی رہی مگر جب کچھ عرصے بعد میاں اظہر کے پاس خاصے پیسے آگئے اور جماعت علی کے پاس تجربہ آگیا تو دونوں ایک دوسرے کو بوجھ تصور کرنے لگے۔ یہی ہمارے وطن عزیز پاکستان میں پارٹنر شب پر مبنی کاروباریوں کی داستان ہے۔ ان دونوں کے درمیان سخت قسم کا جھگڑا شروع ہوگیا، یہاں تک کہ ایک دن جماعت علی بھولا، میاں اظہر لطیف کے گھر میں داخل ہوگیا اور چادر، چاردیواری کا لحاظ بھی نہ کیا۔ وہ میاں اظہر لطیف کی ٹانگیں تورنے اور آنکھیں نکالنے کا عزم کئے ہوئے تھا۔ خوش قسمتی سے اس وقت میاں اظہر لطیف گھر میں نہیں تھا، سو بچ گیا۔ ایک ٹھیکیدار کے ذریعے میاں اظہر کی کور کمانڈر لاہور کے دفتر میں ایک کرنل سے واقفیت تھی، اس نے کرنل سے شکایت کی۔ کرنل نے جماعت علی کو طلب کیا اور دھمکیاں دیں اور کچھ مہلت دی کہ ”شراکت ختم کرو اور تم اس کے پیسے واپس کرو“۔ دوسری مرتبہ کرنل کے بلاوے پر جماعت علی مجھے بھی ہمراہ لے گیا۔
میں نے کرنل صاحب سے سوال کیا کہ ”کیا فوج نے کسی آرڈر یا حکم نامے کے ذریعے لوگوں کی ذاتی شکایات سننے کا کوئی نیا نظام رائج کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں بھی کچھ لوگوں کے خلاف درخواست دینا چاہتا ہوں“۔ کرنل صاحب میرے چبھتے ہوئے سوال کی تہہ تک پہنچ گئے اور سمجھ گئے کہ یہ شخص قانون جانتا ہے اور بجا طور پر سمجھتا ہے کہ کسی فوجی کے پاس پراپرٹی ڈیلروں کے جھگڑے نمٹانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں نے کرنل صاحب کو مفت مشورہ دیا کہ ”آپ ان سے کہیں کہ یہ دونوں اپنے ہاں معززین کو بٹھا کر ثالثی کروالیں“۔ اگلی دفعہ جب وہ دونوں کرنل صاحب کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے حکم صادر فرمایا کہ ”ثالثی کروائیں اور ثالث بننے کے لئے رانا نذرالرحمن نامی وہی شخص مناسب ترین ہے، جو یہاں میرے پاس آیا تھا، وہ شخص مجھے خاصا زیرک اور سمجھدار لگتا ہے“! چنانچہ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور مجھے ثالثی کے لئے آمادہ کیا۔
میں نے انہیں وقت دے دیا میاں اظہر لطیف وقت مقررہ پر اپنے ساتھ دس حمایتیوں کو لے کر آئے اور جماعت علی بھولا چھ افراد کو .... یوں ثالثی کی یہ مجلس جمی تو میں نے وضو کیا اور قرآن مجید ہاتھوں میں تھاما اور کہا کہ میں اس مقدس کتاب قرآن مجید فرقان حمید پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتا ہوں کہ میں پورا انصاف کروں گا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے صحیح فیصلہ کرنے اور حقائق تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے“! اس کے بعد میں نے ان دونوں کو وضو کرکے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر سچائی بیان کرنے کے لئے کہا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ دونوں نے سچ اگل دیا جتنی دستاویزات ایک دوسرے کے خلاف جعلی تیار کی ہوئی تھیں انہیں خود ہی جھوٹا قرار دے دیا۔ میاں اظہر لطیف کے ساتھ جو دس آدمی حمایت میں آئے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ ”رانا صاحب! یہ دونوں بہت ہی جھوٹے ہیں لیکن ہم جس شخص کی حمایت میں آئے ہیں، وہ تو جھوٹوں کا بادشاہ ہے۔ میں نے کہا: ”میں اب انہیں مزید شرمسار نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے فیصلہ تحریر کیا، دونوں کے دستخط کرائے اور دونوں طرف کے ایک ایک گواہ سے بھی دستخط کرائے اور اس فیصلے پر دس پندرہ روز کے اندر عملدرآمد بھی ہوگیا۔ بعد میں جماعت علی بھولا نے میرا بے حد شکریہ ادا کیا کہ آپ نے مجھے بہت بڑے عذاب سے بچالیا اگر میں اس روز میاں اظہر کی ٹانگیں توڑ دیتا یا آنکھیں پھوڑ دیتا تو آج جیل میں پڑا سڑ رہا ہوتا“.... یونین کمیٹی کی اپنی چیئرمین شپ کے دوران مجھے ایسے ہی متعدد واقعات و و تجربات و مشاہدات کا موقع ملا۔ اکثر اوقات لوگ مجھے سچی بات بتا دیتے تھے۔ ٭