بجٹ 2015-16ء۔۔۔۔۔۔ کیا معیشت کی ڈوبتی کشتی سنبھل گئی؟

بجٹ 2015-16ء۔۔۔۔۔۔ کیا معیشت کی ڈوبتی کشتی سنبھل گئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عرفان یوسف
پاکستان کی وفاقی حکومت نے زرعی آمدن میں اضافے کے لیے کاشتکاروں کے لیے بعض مراعات کا بھی اعلان کیا ہے جن میں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل کے لیے کسانوں کو بلا سود قرضے شامل ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ زرعی شعبے کے لیے دی جانیوالی ان مراعات کے ذریعے حکومت زرعی پیدوار میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے جو اس وقت ملکی مجموعی پیدوار کا بیس فیصد بنتا ہے ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے معیشت کی ترقی کی رفتار یا جی ڈی پی میں اضافے کے لیے جو ہدف مقرر کیا ہے وہ زرعی شعبے کی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور شائد اسی نکتہ نظر سے حکومت نے زرعی شعبے کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے حکومت نے آئندہ تین برسوں میں جی ڈی پی کی ترقی کی شرح سات فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔افسروں ،ملازمین اور مزدور تنظیموں نے وفاق بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ساڑھے 7فیصد اضافہ مسترد کر دیا ہے اور احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔مختلف سرکاری افسران، ایمپلائز یونینز اورمزدور تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وفاقی دارلحکومت کے سیکرٹریز کی تنخواہوں میں 100فیصد اضافہ کیا ہے جسے فی الفور واپس لیا جائے اور تنخواہوں میں کم از کم 50فیصد اضافہ کیا جائے اور پنشنرز کی پنشن میں 100فیصد اضافہ کیا جائے۔ یہ غریب آدمی کا بجٹ نہیں ، حکومت نے کسان مزدور اور چھوٹے ملازمین کیلئے دشمن بجٹ پیش کیا جسے مسترد کرتے ہیں اور الاؤنسز میں کم از کم 50فیصد اضافہ کیا جائے ورنہ سٹرکوں پر آئیں گے لاہور چیمبر آف کامرس کی طرف سے اسے متوازی بجٹ جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے صنعتکاروں نے اسے مایوس کن قرار دیا ہے ایس آراو کے ذریعے مخصوص شعبوں کو ڈیوٹیوں و ٹیکسوں کو متثنی قرار دینے کے اختیارات واپس لینا اور سولر ٹیوب ویلوں کے لیے بلاسود قرضوں کا اجراء لاہور چیمبر کا دیرینہ مطالبہ تھا داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 52ارب روپے، نیلم جہلم کیلئے 11ارب روپے اور دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے 21ارب روپے کے فنڈز ان منصوبوں کی جلد تکمیل میں مددگار ثابت ہونگے پانی کے منصوبوں کے لیے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں تھے ایکسپورٹرز کے لیے قرضوں پر مارک اپ میں کمی خوش آئند ہے، اس سے ایکسپورٹ سے وابستہ صنعتوں کی حوصل ہافزائی ہوگی سڑکوں اور پلوں کے لیے 185ارب روپے مختص کرنے سے انفراسٹرکچر مزید بہتر ہوگا پاکستان ریلوے کے لیے بھاری فنڈز مختص کرنے سے اس اہم ادارے کی بحالی میں مدد ملے گی دفاعی بجٹ میں گیارہ فیصد وقت کی اہم ضرورت تھا، بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں اضافہ کرنے سے غریب طبقے کو ریلیف ملے گا ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 1513ارب روپے مختص کرنا درست سمت میں قدم ہے لیکن اسکے صحیح استعمال کو یقینی بنانا ہوگا گاڑیوں کی ٹرانسفر اور ٹوکن فیس میں کمی بھی اچھا قدم ہے پچھتر ہزار روپے سے زائد بجلی کے بلوں پر دس فیصد انکم ٹیکس عائد کرنا درست قدم نہیں کیونکہ اس سے پیداواری لاگت بڑھ جائے گی مالی سال 2015 تا 2016 کے بجٹ کا مجموعی حجم 43 کھرب 13 ارب ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں نو فیصد زائد ہے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کے لیے سات کھرب 80 ارب روپے مختص کیے ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد کا اضافہ ہے رواں مالی سال کے دوران دفاعی اخراجات کی مد میں سات کھرب روپے مختص کیے گئے تھے آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 29 فیصد اضافہ کر کے سات کھرب روپے کر دیا گیا ہے آئندہ سال حکومت نے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 40 کھرب 89 ارب روپے لگایا ہے جبکہ حکومتی اخراجات کا تخمینہ 31 کھرب 51 ارب روپے ہے بجٹ تجاویز کے اعلان کے موقعے پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ’سنہ 2014 میں پاکستان کی معشیت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی لیکن اب معشیت کی ڈوبتی کشتی سنبھل گئی ہے رواں مالی سال کے دوران خسارہ ملکی خام پیداوار کا پانچ فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جبکہ آئندہ مالی سال میں بجٹ کے خسارے کو مزید کم کر کے 4.3 فیصد تک لایا جائے گاوفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں ساڑھے سات فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے، اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کے میڈیکل الاؤنس میں بھی 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے وزیر خزانہ نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی واپسی اور بحالی کے لیے جامع منصوبہ بنایا گیا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس مد میں ایک کھرب 16 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ جس میں سے 80 ارب روپے خصوصی ٹیکس کے ذریعے اکٹھے کیے جائیں گے 50 کروڑ سالانہ منافع سے زیادہ کمانے والی کمپنیاں دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے اپنی آمدن کا تین فیصد ٹیکس دیں گی جو صرف ایک مرتبہ دینا ہو گاحکومت نے آئندہ مالی سال میں توانائی کے منصوبوں کے لیے دو کھرب 48 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے حکومت کی کوشش ہے کہ دسمبر 2017 تک ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دی جائے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں پانی کے ذخائر کے منصوبوں کے لیے 31 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں دیہی کے علاقوں کے طلبہ کو وظائف دینے کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔ پانی وبجلی کے منصوبوں کے لیے آئندہ مالی سال میں ایک کھرب 42 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 71 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ریلوے کے لیے 78 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور 170 نئے انجن خریدے جائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ بجٹ میں ریلوے سٹیشنوں کو بہتر بنانے کے لیے فنڈ مختص کیے گئے ہیں جبکہ مالی سال کے دوران سیاسی عدم استحکام اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اقتصادی ترقی کا پانچ فیصد کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے اور اقتصادی شرح نمو 4.2 فیصد رہی ہے رواں مالی سال پاکستان کی معشیت نے 4.2 فیصد کی شرح سے ترقی ہے جو ہدف سے تو کم ہے لیکن گذشتہ سات برس میں اقتصادی ترقی کی بلند ترین سطح ہے وزیر خزانہ نے کہا کہ بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل اور اجناس کی قیمتوں میں کمی بھی اقتصادی ترقی پر اثرانداز ہوئی ہے اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں بڑی صنعتوں میں ترقی کی شرح 2.5 فیصد رہی جبکہ گذشتہ سال صنعتوں میں ترقی کی شرح 4.6 فیصد رہی تھی زرعی شعبے نے 2.88 فیصد کی شرح سے ترقی کی جبکہ خدمات کے شعبے کی شرح نمو 4.95 فیصد رہی ہے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے ساڑھے چار ارب ڈالر کا نقصان اْٹھانا پڑا ہے جبکہ 001۔ 20015 تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو 107 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے وفاقی حکومت کے بجٹ2015-16کو ایک عوام اور ٹیکس فری بجٹ قرار دیا جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے وفاق کے بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندا قرار دیاوفاقی وزیر احسن اقبال حکومت نے 2015-16کیلئے ایک عوام،مزدور اور کسان دوست بجٹ پیش کیا ہے تعلیم،زراعت،انرجی اور ڈویلپمنٹ سیکٹر کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔جس سے ان شعبوں میں انقلاب کیساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی واضح کمی ہوگی۔مزدور کی تنخواہ13ہزار کر کے دل جیت لیے ہیں ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا جائے گابلوچ رہنما محمود خان اچکزئی کہ وفاقی حکومت نے تیسر ا عوام دوست بجٹ پیش کیا۔بلوچستان کے متاثرین کیلئے امداد کا اعلان کر کے بلوچ عوام کے دل جیت لیے۔اینٹ اور بجری کو ٹیکس فری بنانا خوش آئند ہے ملک کی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے وفاقی بجٹ کو عوام دشم بجٹ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے اصل بجٹ اس بجٹ کی منظوری کے بعد آئے گابجٹ سے پاکستان کے عوام نہیں آئی ایم ایف کی امیدیں وابستہ ہیں حکمرانوں نے تعلیم، صحت، بلدیاتی انتخابات، انصاف کی بجائے سڑکوں ،پلوں پر قیمتی وسائل خرچ کرنے کی منصوبہ بندی بنارکھی ہے سڑکوں ،سیمنٹ اور سریے کے استعمال سے قومیں اور معاشرے پروان نہیں چڑھتے بجٹ سے پاکستان کے عوام کی کوئی دلچسپی نہیں ،البتہ آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کو ضرور دلچسپی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے قرضے سود سمیت واپس لینے ہیں روایتی طورپر حکومتی حلقے اسے عوام دوست بجٹ قرار دے رہے ہیں اور حکومتی مخالفین اسے اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ، اگرچہ اس بجٹ کو ایک متوازن اور معمول کا بجٹ تو کہا جاسکتاہے لیکن یہ کوئی ایسا انقلابی بجٹ نظر نہیں آتا جو وزیراعظم محمد نوازشریف کے وژن کو عملی شکل میں ڈھالتے ہوئے ملک اور قوم کی تقدیر بدل یہ بجٹ کوئی غیر معمولی نظر نہیں آتا جبکہ ماضی میں اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہنے والے ماہرین معیشت بھی اس بجٹ کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں لیکن یہ امر بجا ہے کہ مذکورہ ماہرین معیشت بھی اپنے اپنے ادوار میں کوئی کمال نہیں دکھا سکے ، شائد پاکستان کے زمینی حقائق اتنے تلخ ہیں جو کسی غیر معمولی انقلابی قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وزارت خزانہ سے منسلک ماہرین اور بیوروکریسی ماضی کی حکومتوں کا ورثہ ہے اس لئے وزارت میں ماہرین و بیوروکریسی کی نئی ٹیم لائے بغیر کوئی انقلابی بجٹ پیش نہیں کیا جاسکتا۔۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ گزشتہ دو برسوں کی معاشی کارکردگی کے پس منظر میں میں نے 2015-16ء کا بجٹ پیش کیا ہے۔ جون 2013ء میں اپنے مقرر کردہ تین اہداف میں سے دو یعنی ڈیفالٹ سے بچنا ا ور مائیکرو اکنامک استحکام کا حصول کو حاصل کرنے کے بعد اب ہم تیسرے ہدف یعنی گروتھ کی طرف سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ جس میں ہر طبقے کی شرکت ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ 700 ارب روپے کے وفاقی پی ایس ڈی پی اور 814 ارب روپے کے صوبائی سرمایہ کاری کی بدولت سرکاری شعبے کے ترقیاتی اخراجات 1514 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے جو کہ جی ڈی پی کا 5 فیصد ہیں ۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری جس میں اقتصادی راہداری کے تحت سرمایہ کاری بھی شامل ہے جس کی وجہ سے شرح نمو موجودہ سال کے 13.5 فیصد سے بڑھ کر 16.5 فیصد تک چلا جائیگا۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ اس سرمایہ کاری سے گروتھ میں اضافہ ہو گا جس سے ہمارے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری کا امپلیمنٹ افیکٹ اورپاورٹی ایلویشن پروگراموں کی وجہ سے ملک میں لوگوں کی غربت میں کمی آئے گی۔ پانی ‘ بجلی ‘ سڑکو ں اور ریلوے میں سرمایہ کاری سے ثانوی اثرات کے تحت گروتھ اور روزگار پر مزید اچھے اثرات ہوں گے کیونکہ نئے مواقع پیدا ہوں گے اور کاروباری لاگت کم ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ جب معیشت مستحکم ہو چکی ہے ہم نے اصلاحات کا ایک سنجیدہ پروگرام شروع کیا ہے جس کے ذریعے معیشت کے تمام شعبوں میں رکاوٹوں کا خاتمہ اور استحکام کو موثر بنانے اور مارکیٹوں اور مقابلے کو فروغ حاصل ہو گا۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ ہمیں اعتماد ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ ہم اپنے عوام کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ صلاحیت کے اعتبار سے ہمارے عوام دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ میرٹ ‘ شفافیت ‘ خلوص اور قربانی کا ماحول پیدا کیا جائے۔ ہم انہیں اقدار کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ۔ وزیر اعظم نواز شریف قوم کی تقدیر بدلنے پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اس کے حصول کیلئے قوم کی رہنمائی کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور دانشمندی ‘ جذبہ خدمت ‘ ان تھک محنت اور بے لوث جدوجہد کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ بجٹ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 3100ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ ٹیکس دینے والوں کی مراعات اورنادہندگان کو سزاملے گی

مزید :

ایڈیشن 2 -