طوفان کے دوران لاہور آمد
24مئی کو علی الصباح چار بجے جب ہم لاہور ایرپورٹ پر اترے تو بارش، بجلی، چمک اور تیز ہواؤں کے جھکڑ پر مشتمل وہ طوفان ابھی جاری تھا جس کے باعث ہمارا جہاز لاہور کے قریب پہنچنے کے بعد نیچے اترنے کی بجائے مزید بلندی پر چلا گیا اور پھر بالآ خر پون گھنٹے کی تاخیر کے بعد نیچے اترآیا۔ جب ہم واشنگٹن ایریا سے ڈلس ایرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے تو پون گھنٹے کے راستے میں تیز بارش چھوڑ کر آئے تھے اور لاہور پہنچے تو پھر وہ سامنے کھڑی تھی۔ واشنگٹن سے ابو ظبی کا سفر پھر بھی خاصہ ہموار تھا اور ابو ظبی سے لاہور آتے ہوئے آدھے راستے سے طوفان شروع ہو چکا تھا۔
ہم تقریباً ہر سال لاہور آتے ہیں لیکن اس دفعہ دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا ۔میں تکلفاً اپنے آپ کو ’’ ہم‘‘ نہیں کہہ رہا اس میں میری فیملی کے دو اور ارکان شامل ہیں۔ میں تو اپنی ’’زمان فیملی‘‘ کا نام نہاد سربراہ ہوں لیکن اصل’’ چیف آف آپریشنز‘‘ میری بیگم عصمت زمان ہیں ۔ ایک تو وہ اور تیسری ہماری لاڈلی بیٹی بسما زمان ساتھ تھیں جو صرف دو ہفتے قبل کیمیکل انجینئر بن گئیں مئی کے وسط میں واشنگٹن کے نواح میںیونیورسٹی آف میری لینڈ کالج پارک(UMCP) میں ہونے والی گریجویشن رسم میں اس نے’’ بائیو لاجیکل اینڈ کیمیکل انجینئرنگ‘‘کی ڈگری وصول کی۔ اس نے انجینئر بننے کے بعد اس کا جشن منانے کے لئے خلاف معمول اس دفعہ پاکستان آنے کے لئے اتنے گرم موسم کا انتخاب کیا۔ میری باقی دو بیٹیوں کنول اور شاہ رخ کو اپنے بہت چھوٹے بچوں کے ہمراہ ہمارا ساتھ دینے کا حوصلہ نہیں ہوا۔
تقریباً پندرہ سال لاہور میں اپنا ذاتی ایڈریس ختم کرنے کے بعد ہماری فیملی کا ایک مرتبہ پھر ایک چھوٹا سا ٹھکانہ بن گیا ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی(UET)میں اپنے سسرال کے پاس قیام کرنے کی بجائے ہمیں صرف اتنی سی جگہ چاہیے تھی جہاں ہم کچھ چیزیں رکھ لیں اور سال بعد تین چار ہفتوں کے لئے آئیں تو وہاں آسانی سے رہ سکیں۔ اس وجہ سے ہم اپنی روایت کے برعکس وافر تحائف لانے کی بجائے اپنے نئے گھروں کا سامان لے کر آئے تھے۔ہمارے چھ سوٹ کیس اور چھ ہینڈ کیری میں استعمال کے کپڑے اور تحائف بہت کم ہیں۔ دو سوٹ کیسز میں بھاری بھر کم برتن امریکہ سے لائے جن کی وجہ سے زیادہ وزن کا تقریباً دوسو ڈالر پہلے ہی ادا کر دیا تھا۔ ڈی ایچ اے رہبر کے گیٹ کے سامنے ڈیفنس روڈ کے بڑے گول چکر کے دوسری طرف ایک چھوٹی سی رہائشی سکیم’’ واک لینڈ ولاز‘‘ہے جس میں ہم نے پانچ پانچ مرلے کے ڈبل سٹوری تین گھر خریدے ہیں اور ایک گھر کو صفر سے شروع ہو کر اتنا مناسب فرنش کرلیا ہے کہ میں اس وقت وہاں بیٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ میرے برادر نسبتی شفیق الرحمان ایک ماہر آرکیٹکٹ ہیں جنہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر ان گھروں کو تیار کرایا ہے۔ ڈیولپر چودھری وحید ہماری ہر وزٹ پر پانچ کے گروپ کو دعوت دیتے ہیں اور اس مرتبہ بھی وہ باہمی سہولت کا وقت طے کر رہے ہیں۔
ایک چیز ہوتی ہے جیٹ لیگ(JET LAG) جس کا کچھ لوگ نیند پوری کرنے یاسستی دور کرنے کے لئے جائز نا جائز استعمال کرتے ہیں لیکن کم از کم میں نے اسے غلط ثابت کردیا۔ ہم لوگ 24مئی کی صبح پانچ چھ بجے یو ای ٹی والے گھر پہنچے ہوں گے اور چند گھنٹے آرام اور کھانے کے بعد میں ٹھیک تین بجے سہ پہر روزنامہ ’’پاکستان ‘‘ میں موجود تھا فوری طور پر ایک تجزیہ لکھا جو 25مئی کے اخبار میں چھپ گیا۔ جس کے بعد بھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے جاری ہے۔ شعیب بن عزیز کا کہنا ہے کہ جیٹ لیگ ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو لگے بندھے وقت کے ساتھ سوتے جاگتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جنہوں نے سونا بھی دیر سے اور اٹھنا بھی دیر سے انہیں جیٹ لیگ نہیں ہوسکتا۔
لاہور میں ایک چھوٹا ہی سہی، لیکن اپنا ٹھکانہ بن گیا ہے، جہاں ہم جب کبھی آئیں تو قیام کر سکتے ہیں۔ ناسٹلجیا کسے نہیں ہوتا، لیکن جس نے لاہور میں وقت گزارا ہو اور پھر لاہور سے جدا ہو جائے اور پھر وقفے وقفے سے ادھر آئے تو اس کے ناسٹلجیا کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ شاید لاہور کی اسی محبت کی خاطر اس مرتبہ گرمیوں میں یہاں آنے کا تجربہ بھی کیا ہے۔ ایک ہم ہی نہیں لاہور کے ایسے ’’دیوانے‘‘ لاکھوں میں ہیں جو اس کی صورت کو دیکھنے کے لئے گردوغبار، گرمی، حبس اور چلچلاتی دھوپ برداشت کرنے کو تیار ہوتے ہیں، لیکن اس دفعہ لاہور کا جو حلیہ دیکھا ، وہ ناقابلِ برداشت حد تک تکلیف دہ ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی عدم فراہمی اور دیگر عوامی مسائل تو باقی مُلک کی طرح لاہور میں بھی بدستور موجود ہیں، لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ پورے شہر کو سڑکوں کی تعمیر یا تعمیر نو اور اورنج ٹرین کا راستہ بنانے کے لئے کھود کر رکھ دیا گیاہے اس میں لوگ کیسے رہ رہے ہیں۔ کسی مسئلے کی زد پڑتی ہے تو یقیناًلوگ اس بناء پر اعتراضات اور تنقید کرتے ہیں، لیکن لاہور کے پورے سٹرکچر کو جس بے رحمی کے ساتھ توڑ پھوڑ دیا گیا ہے اس پر مجھے شہریوں کے جس ردعمل سے واسطہ پڑا ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ غم و غصے کے اظہار کے کتابی الفاظ ہم اکثر استعمال کرتے رہتے ہیں، لیکن ہر طبقے کے جس بھی فرد سے مَیں ملا ہوں اس کے سامنے جب یہ ذکر چھڑا ہے تو اس کا مُنہ غصے سے لال پیلا ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انہیں یہ بتا کر کوئی آدمی دکھایا جائے کہ اس طرح کی حالت کرنے کا یہ وہ ذمہ دار ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس کی اسی وقت تکا بوٹی ہو جائے۔ صاحبان اقتدار کی صحت پر کوئی فرق نہیں ہے۔ شاید ان کے معمولات اسی طرح جاری ہیں۔ امریکہ میں بھی ایک سپر ایلیٹ رہتی ہے۔ آپ بیس سال بھی وہاں رہ لیں تو ہو سکتا ہے۔ آپ کا اس سے واسطہ ہی نہ پڑے۔ وہ ایکڑوں پر پھیلے ہوئے اپنے بڑے بڑے مینشنز میں رہتی ہے۔ اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں اور تھیٹروں میں تفریح کے لئے جاتی ہے اور سپر مارکیٹ کے فیشن سٹورز میں جاتی ہے اور ان کا سٹاف ان کے لئے گراسری کرتا ہے اس لئے وہ عام امریکیوں کو نظر بھی نہیںآتے۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں بھی صاحبان اقتدار یا ان سے وابستہ امراء کا مخصوص طبقہ بھی اسی طرح کی ایک سپر ایلیٹ ہے جو عوامی مسائل سے بے نیاز ہے۔کبھی نیوز چینلز یا دیگر میڈیا کے لئے وہ فوٹو سیشن کے لئے وقتی طور پر اپنے پُرتعیش حصار سے باہر نکلتی ہے اور پہلی فرصت میں واپس چلی جاتی ہے۔ یہ اتنے خوش نصیب لوگ ہیں کہ انہیں انتخابات کے وقت بھی دربدر ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پارٹی کے ’’مخلص کارکن‘‘ کس مرض کی دوا ہیں۔ ان کے مفادات پورے ہوتے رہتے ہیں اور جواباً وہ انتخابی میدان میں اپنے ’’صاحبوں‘‘ کے لئے دن رات کام کر کے اس کا بدلہ چکا دیتے ہیں، چند سال سے مُلک میں تبدیلی کا بہت شورو غوغا ہو رہا ہے۔ مجھے تبدیلی میں کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن یہ تبدیلی ایسی نہیں ہے کہ کوئی نیا خاندان ’’صاحبان اقتدار‘‘ میں شامل ہو جائے۔ مقتدر خاندان تو ایسے ہی رہیں گے البتہ کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی گدی خالی ہو گی تو وہاں اس کا بھائی یا بیٹا بیٹھ سکتا ہے۔ مجھے تو بس یہی تبدیلی نظر آتی ہے۔ ایک طرح کے طوفان میں ہماری لاہور آمد ہوئی ہے۔ اس طرح کے اور طوفان بھی آتے رہیں گے۔ ایک سڑکوں پر موقو ف نہیں، صاحبان اقتدار ہر طرح کی اکھاڑ پچھاڑ کرتے رہیں گے، لیکن تبدیلی کا یہ تصور سپر ایلیٹ کے بند قلعے میں داخل نہیں ہو سکتا۔