مسجد کا دروازہ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں

مسجد کا دروازہ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں
 مسجد کا دروازہ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سیالکوٹ کے سابق سیکرٹری اور سینئر وکیل چودھری شہناز احمد کم از کم دس گیارہ مرتبہ میرے دفتر آئے اور شاید وہ اتنی مرتبہ ہی ڈی پی او سیالکوٹ کے پاس بھی گئے ہوں۔وہ علاقہ سول لائن، کینال کالونی اور پاک پورہ کے باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھنے والے شہریوں کے ایک مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ پولیس لائن سیالکوٹ کی جامع مسجد کا شمالی دروازہ مستقل طور پر بند کر کے وہاں ایک دیوار تعمیر کر دی گئی ہے۔ڈسٹرکٹ پولیس افسر کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر یہ دروازہ ختم کیا گیا ہے۔یہی وہ دروازہ تھا جہاں سے سول آبادی کے رہائشی مسجد میں پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ جمعہ کی نماز پڑھنے آتے تھے۔ پولیس لائن سیالکوٹ کی مسجد کی تعمیر نو کے زیادہ تر اخراجات بھی اُن شہریوں نے ایک عبادت سمجھ کر برداشت کئے تھے، جن پر اب ڈی پی او سیالکوٹ نے مسجد کا شمالی راستہ دیوار تعمیر کر کے مستقل طور پر بند کر دیا ہے۔ڈسٹرکٹ پولیس افسر سیالکوٹ کی معلومات اگر یہ ہیں کہ جامع مسجد پولیس لائن کو دہشت گردوں کی طرف سے کسی حملے کا خطرہ لاحق ہے تو یہ ایک حساس مسئلہ ہے،لیکن اِس معاملے کا حل مسجد کا وہ دروازہ بند کر کے وہاں دیوار تعمیر کر دینا نہیں تھا،جہاں سے شہری پولیس لائن میں واقع اللہ کے گھر عبادت کے لئے آتے تھے۔ پولیس کی ذمہ داری تو ضلع بھر کی مساجد کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ نہ صرف مساجد، بلکہ جس بھی ادارے کو دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہو، پولیس کے اہلکار وہاں ڈیوٹی سنبھال لیتے ہیں۔اگر پولیس لائن کی جامع مسجد کے ایک دروازے کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس قبول نہیں کر سکتی، وہ دروازہ جو صرف نماز کے اوقات ہی میں کھولا جاتا تھا، اگر اس کی حفاظت کی اہلیت پولیس نہیں رکھتی، تو پھر اس پولیس سے یہ امید کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ خود پر عائد ہونے والی مزید کوئی ذمہ داری بھی پوری کر سکتی ہے۔پولیس لائن میں دن اور رات بڑی تعداد میں پولیس موجود رہتی ہے۔ اگر یہاں کوئی دہشت گردی کا خطرہ درپیش ہو تو کسی اور مقام سے پولیس طلب کرنے کی ضرورت نہیں، یعنی ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے یہاں پولیس کا بروقت موجود ہونا اللہ کے فضل و کرم سے ایک خوش آئند بات ہے۔پولیس کی اس نفری کے ہوتے ہوئے پولیس لائن کی مسجد کے شمالی دروازے کی حفاظت بڑی آسانی کے ساتھ ممکن ہے اور وہ بھی صرف نمازوں کے اوقات میں۔

جہاں تک دہشت گردی کے واقعات کا تعلق ہے، ان سے متعلق تو ہماری دُعا ہے کہ یہ واقعات، بلکہ سانحات ملک کے کسی بھی شہر اور علاقے میں رونما نہ ہوں۔اگر کسی خاص مقام کے حوالے سے دہشت گردی کی کوئی مصدقہ معلومات ہوں تو اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کرنا بھی سیکیورٹی اداروں کی ہی ذمہ داری ہے اور یہ بات بھی ڈسٹرکٹ پولیس افسر سیالکوٹ کو معلوم ہونی چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کا تعاون بہت ضروری ہے۔اگر قوم شریک نہ ہو تو دہشت گردی کے خلاف فوج بھی اپنے اقدامات میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر پولیس لائن سیالکوٹ کی مسجد یا خود پولیس لائن میں مقیم پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں کی طرف سے کوئی حقیقی خطرہ درپیش ہے تو اس کے لئے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کی ضرورت ہے۔ سیالکوٹ کے شہری بھی ان انتظامات کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں، جس طرح انہوں نے پولیس لائن کی مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر پولیس لائن سیالکوٹ یا خود ڈی پی او سیالکوٹ کو سچ مچ دہشت گردوں کی طرف سے کوئی دھمکی دی گئی ہے تو پھر اس کا حل مسجد کا ایک دروازہ بند کرنے سے ممکن نہیں،بلکہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایسے کسی خطرے سے نمٹنے کے لئے منصوبہ سازی کی جانی چاہئے اور عوام سے بھی تعاون کی درخواست کرنی چاہئے،لیکن عوام کے لئے عبادت کی غرض سے پہلے سے موجود کسی دروازے یا راستے کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی یہ کوئی دانشمندی ہے۔مجھے تو خوف ہے کہ ڈی پی او سیالکوٹ کا یہ اقدام کہیں اللہ کی نافرمانی میں شمار نہ ہو جائے۔ مَیں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے بہت سارے بہادر، فرض شناس اور پوری قوم کے لئے قابلِ فخر پولیس افسروں اور اہلکاروں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونا بھی قبول کر لیا ہے،لیکن اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔جہاں تک دہشت گردوں کا معاملہ ہے، یہ وہ بدبخت مخلوق ہے، بلکہ انسانوں کی شکل میں یہ وہ درندے ہیں کہ وہ کہیں بھی تخریب کاری کی مذموم حرکت سرانجام دے سکتے ہیں۔ان کے مدمقابل پوری قوم ردّالفساد کی خاطر حاضر ہے۔آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہو یا پریڈ لائن مسجد، راولپنڈی کا المناک واقعہ اِس حوالے سے آج تک پوری قوم گہرے صدمے میں ڈوبی ہوئی ہے،لیکن دہشت گردوں کی کسی بھی بزدلانہ واردات کے بعد کبھی ادارے بند نہیں ہوتے۔


سول لائن، کینال کالونی اور پاک پورہ کے نمازی کوئی ضدی یا ہٹ دھرم لوگ نہیں کہ وہ دہشت گردی کا خطرہ ہونے کے باوجود پولیس لائن سیالکوٹ کی مسجد کا شمالی دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ کسی موہوم خطرے کا بہانہ بنا کر مسجد کا یہ دروازہ بند نہیں کرنا چاہئے تھا۔صرف ایک دروازہ بند کر کے خطرے کو ٹالا یا روکا نہیں جا سکتا۔ جس طرح پولیس افسروں اور پولیس اہلکاروں کی جانیں قیمتی ہیں،اسی طرح عام شہریوں کی جانیں بھی قیمتی اور اہم ہیں۔ کوئی بھی شہری اتنا احمق نہیں کہ اگر پولیس لائن سیالکوٹ کی جامع مسجد کو کوئی خطرہ درپیش ہو تو وہ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالے اور دوسروں کے لئے بھی نقصان کا باعث ہو۔ شہریوں کو، بالخصوص نمازیوں کو ڈی پی او سیالکوٹ کی یہ منطق سمجھ نہیں آئی کہ اگر ڈی پی او اپنے سرکاری گھر اور دفتر کی حفاظت کے لئے غیر معمولی انتظامات کروا سکتا ہے۔ ڈی پی او سیالکوٹ جب بھی گھر سے دفتر جاتا اور واپس آتا ہے تو اس کی سیکیورٹی کے زبردست انتظامات کئے جاتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہے۔ جتنی پولیس کی نفری ایک ڈی پی او کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے،اس سے چار گنا کم پولیس اہلکاروں کو اگر ذمہ داری سونپ دی جائے تو پولیس لائن کی مسجد کا شمالی دروازہ آسانی کے ساتھ استعمال ہو سکتا ہے۔یہ سادہ سی بات ہے جو اب تک ڈی پی او سیالکوٹ کو سمجھ لینی چاہئے تھی۔ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈی پی او سیالکوٹ کو ہر خطرے سے محفوظ رکھے۔ وہ خالص اللہ کی خوشنودی کی خاطر مسجد کا چار ماہ سے بند کیا ہُوا شمالی دروازہ کھول دیں۔ رمضان کا مہینہ ویسے بھی نیکیوں کا موسم بہار ہے،وہ خود بھی اللہ کی رحمتوں سے اپنے دامن کو بھر لیں اور ان نمازیوں کے لئے مسجد کا شمالی راستہ بحال کر دیں،جنہوں نے بڑی محبت اور عقیدتوں کے ساتھ پولیس لائن کی مسجد کی تعمیر میں دِل کھول کر اپنا اپنا حصہ ڈالا تھا۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے دِل اپنے گھروں سے زیادہ مساجد میں آ کر خوشی اور راحت محسوس کرتے ہیں اور ڈی پی او سیالکوٹ کی خوش بختی ہو گی اگر وہ ایسے افراد کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کا باعث ہوں جو پانچ وقت اللہ کے گھر میں داخل ہونے کی تمنا اپنے دِلوں میں رکھتے ہیں۔یہ چند سطور مَیں نے بھی اسی غرض سے لکھی ہیں کہ ممکن ہے کسی نمازی کی دُعا میرے لئے بھی آخرت کا سامان بن جائے۔

مزید :

کالم -