علاؤ الدین نے یہ خبر سن کر ایک زبردست لشکر فراہم کیا اور علاقہ غور کے تمام جنگجو افغانوں کو اپنے مقتول بھائیوں کی مظلومی کے حالات سنا سنا کر انتقام پر مستعد اور بے حد پرجوش بنا دیا۔
علاؤ الدین کی فراہمی لشکر اور غزنی پر فوج کشی کے ارادے کا حال سن کر بہرام شاہ نے اپنی ہندو فوج اور راناؤں کو ہمراہ لے کر غورکی طرف پیش قدمی کی۔ مقام زمینداور کے قریب دونوں لشکر ایک د وسرے کے مقابل خیمہ زن ہوئے۔ آخر لڑائی ہوئی چنانچہ سخت جنگ اور تباہی کے بعد غوری لشکر نے غزنی فوج کو بھگا دیا۔ تگین آباد میں آکر بہرام شاہ نے اپنی فوج اور مفرور ہندؤ سرداروں کو سمیٹ کر پھر ایک مقابلہ کیا مگر اس مرتبہ بھی شکست کھائی۔ یہاں سے فرار ہو کر خاص شہر غزنی کی دیواروں کے نیچے ایک سخت مقابلہ کیا لیکن اس مرتبہ پھر شکست کھائی اور ہند کی طرف بھاگ آیا۔ علاؤ الدین حسین سوری نے غزنی میں داخل ہو کر سات شبانہ روز قتل عام کرایا اور شہر میں آگ لگا کرایک ایک عمارت کوجلایا۔ غزنی کا کوئی گھر اورکوئی خاندان جلنے اور قتل ہونے سے نہیں بچا۔ اسی لئے علاؤ الدین کو جہاں سوز کا خطاب ملا۔ علاؤ الدین جہاں سوز غزنی کو برباد کرکے اپنے بھائیوں کے تابوت لے کر غور کی جانب چلا گیا ۔وہ دراصل اپنی ہیبت و شوکت کا دور دور تک سکہ بیٹھانا چاہتا تھا۔ شہر فیروز کوہ میں پہنچ کر اس نے اعلان بادشاہت کردیا اور اپنے آپ کو سلطان کے لقب سے ملقب کیا۔
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 58 پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں
پایۂ تخت دہلی(ہندوستان) پر افغانوں کی حکومت
افغانوں نے تقریباً چار صدیوں تک ہندوستان پر مسلسل حکومت کی جن کے اسمائے گرامی کا ذکر بالترتیب یوں ہے:
شہاب الدین محمد غوری نے پشاور اور اس کے ملحقہ علاقہ پر ۵۷۵ھ میں قبضہ کیا۔ اور ۵۸۲ھ میں حسین خرمیل افغان کو سیالکوٹ کا حاحکم اعلیٰ مقرر کرکے ۵۸۸ھ میں دہلی پر قابض ہو۔ اس وقت سیالکوٹ کو پنجاب کا حاکم اعلیٰ مقرر کرکے ۵۸۸ھ میں دہلی پر قابض ہوا۔ اس وقت سیالکوٹ کو پنجاب میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ دہلی پر قبضہ کرنے کے بعد شہاب الدین محمد غوری نے اپنے سپہ سالار قطب الدین ایبک کے ذریعہ وہاں پر سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی۔ جہاں پر ائے پتوار کا بت خانہ تھا۔ اور ہندوستان میں مستقل اسلامی حکومت قائم کی۔ ۳۲ سال چند ماہ حکومت کرنے کے بعد ۲ شعبان ۶۰۲ھ کو وفات پائی۔ اس کی وفات پر اس کا بھتیجا محمود بن غیاث الدین غور کا بادشاہ ہوا اور اس نے قطب الدین کو تاج و تخت کے فرمان اور دیگر چیزیں ارسال کرکے خطاب شاہی عطا فرمایا چنانچہ قطب الدین ایبک لاہور میں تخت شاہی پر بیٹھ کر ہندوستان کا بادشاہ ہوا اور اس طرح بجائے سیالکوٹ کے لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی اور اس کی رونق میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔ شاہی قلعہ لاہور اور جامع مسجد کی بنیاد اسی نے رکھی تھی جس میں بعد میں مغل حکومت نے از سر نو اضافہ کیا۔ وہ نہایت کامیاب حکومت کرنے کے بعد ۶۰۷ ھ میں گھوڑے سے گر کر جاں بحق ہوا اور ایبک روڈ انار کلی پر دفن کیا گیا۔ اس کی وفات پر اس کا بیٹا آرام شاہ ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ اس کے بعد شمس الدین التمش جو قطب الدین کا داماد تھا سریر آرائے سلطنت ہوا۔ اس کے بعد اس کا لڑکا رکن الدین فیروز شاہ بادشاہ بنا اس کے بعد التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ تخت پر رونق افروز ہوئی۔ اس کی قبر شاہ جہاں آباد میں ہے۔ اس کے عہد میں ملک ایاز پنجاب کا گورنر تھا جس کی قبر اس وقت رنگ محل لاہور میں موجود ہے۔ اس کے بعد معز الدین بہرام شاہ بن سلطان رکن الدین فیروز شاہ تخت پر بیٹھا۔ اس کے بعد علاؤ الدین پسر سلطان شمس الدین تخت نشین ہوا اور اس کے بعد اس کا بھائی ناصر الدین محمودبادشاہ ہوا اور اس کا وزیر غیاث الدین بلبن مقرر ہوا اور سلطان ناصر الدین محمود کے بعد یہی وزیر غیاث الدین بلبن بادشاہ ہندوستان ہوا۔ پھر اس کا پوتا سلطان معزالدین کیقباد تخت پر بیٹھا۔ اس کے بعد سلطان جلال الدین فیروز شاہ خلجی (غلزئی) بادشاہ ہوا۔ پھر اس کا بھیتجا و داماد سلطان علاؤ الدین خلجی سکندر ثانی بادشاہ ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا قطلب الدین مبارک شاہ بادشاہ ہوا۔ اگرچہ لائق بادشاہی نہ تھا۔ قطب الدین مبارک شاہ کے وقت میں اور پھر اس کے بعد حالات کافی خراب ہوگئے کافور اور خسرو شاہ نے فضا مکدر کر دی لیکن اراکین جرگہ نے ملک غیاث الدین خان کو تخت پر بٹھایا۔ اس کا نام ملک غازی الدین تھا اور قبیلہ تغلق بن کاکڑ بن غرغشت سے تھا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا محمد تغلق تخت پر بیٹھا۔ اس کے بعد اس کا برادرزادہ سلطان فیروز باربک تخت نشین ہوا اور تقریباً ۳۹ سال حکومت کرکے فوت ہوا۔ اس کے بعد غیاث الدین بن فتح خان بادشاہ ہوا۔ اس کے بعد امرائے دربار نے ابوبکر بن ظفر خان بن فیروز شاہ کو تخت پر بٹھایا مگر جلد ہی محمد شاہ بن فیروز شاہ نے تخت پر قبضہ کر لیا اور بادشاہ بنا۔ اس کے بعد سلطان محمد شاہ کا بیٹا سلطان ہمایوں بادشاہ ہوا پھر اس کا بھائی سلطان ناصر الدین محمود شاہ بن محمد شاہ تخت پر بیٹھا مگر اس کی حکومت کے دوران تیمور بادشاہ نے دہلی پر قبضہ کیا۔ اور محمد شاہ شکست کھا کر گجرات چلا گیا۔ تیمور پندرہ دن کے بعد دہلی سے واپس ہوا۔ سلطنت کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ نصرت شاہ بن فتح خان بن فیروز شاہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا اور جونپور میں ابراہیم بادشاہ ہوا۔(جاری ہے )
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔