انتخابات کو با مقصد بنایا جائے

انتخابات کو با مقصد بنایا جائے
انتخابات کو با مقصد بنایا جائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ویسے تو میرے جیسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جسے یقین ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری کے آثار کم ہیں کیوں کہ گزشتہ ہو نے والے دس انتخابات کے باعث قائم ہونے والی حکومتیں کسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکیں تو اب کیا ہوگا۔ سن ستر کے بعد سے دو فوجی ادوار بھی شامل ہیں

پاکستان جیسے ملک میں جس طریقے اور طرز پر انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے وہ سوائے پیسے والوں کے، کسی اور کے بس کا کھیل نہیں رہا ہے۔ ٹرنکوں اور ٹرکوں میں لدا ہوا پیسہ چاہئے جسے امیدوار انتخابات میں استعمال کرے اور کامیابی حاصل کرے۔ اتنے بڑے بڑے حلقے، ووٹروں کی تعداد لاکھوں، بھلا عام آدمی کا کیا کام۔

اتنے مشکل انتخابات کے باوجود امیدواروں کے کاغذات نامزدگی سے حلف نامہ غائب کر دیا گیا۔ پہلے اس حلف نامے میں ترمیم کی گئی جسے احمدیوں کو داخل کرنا تھا۔

پھر دیگر معلومات فراہم کرنے والے حلف نامے غائب کر دئے گئے۔ الیکشن 2018 کے لئے امیدواروں کے نامزدگی فارم میں خظرناک خْفیہ تبدیلی کی گئی۔ مطلب اپنے مفادات کے لئے انتخابی کلب کے سارے افراد ایک ہی انداز میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔

اگر یہ کارروائی انتخابی اصلاحات کرنے والی کمیٹی کی منظوری سے ہوئی ہیں تو اس کے اراکین ہمت کریں اور کھڑے ہوجائیں اور اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کریں کہ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ حلف نامے میں تبدیل کی وجہ سے امیدواروں کے بارے میں موجودہ اثاثے بتانے کی شق ختم، دوہری شہریت کا حلف نامہ ختم، تعلیمی قابلیت اور ڈگری کی شرط ختم، انکم ٹیکس اور زرعی ٹیکس کی معلومات ختم، بچوں کے لئے زیرِ کفالت کا لفظ تبدیل، بیوی بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط ختم، بنک اور دیگر مالیاتی اداروں سے معاف کرائے گئے قرضوں کو ظاہر کرنے کی شرط ختم، تھانوں اور عدالتوں کا کریمنل ریکارڈ بتانے کی شرط غائب ، پچھلے تین سالوں میں غیر ملکی دوروں کی تفصیل دینے کی شرط بھی ختم، واجب الادا یوٹیلیٹی بلز ظاہر کرنے کی شرط بھی غائب، غلط معلومات جمع کرانے پر الیکشن کمیشن کی طرف سے اسمبلی کی رکنیت ختم کا حلف نامہ بھی ختم۔ غرض امیدوار کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں رہی۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی نے تو جو رنگ دکھلایا، الیکشن کمیشن کے سربراہ، اراکین اور افسران کہاں غائب تھے۔ انہیں کیوں نہیں علم ہوا کہ امیدواروں کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

کاغذات نامزدگی میں درج حلف نامے کے ذریعہ امیدوار سے جو معلومات طلب کی جارہی ہیں، وہ بھلا کیوں ضروری نہیں سمجھی گئیں۔ اگر لاہو ہائی کورٹ میں درخواست دائر نہ کی جاتی اور عدالت فیصلہ نہ دیتی تو امیدوار بغیر کسی روک ٹوک کے، منتخب ہو کر ’’مقدس‘‘ ایوان میں داخل ہوجاتے۔

ایوان کے تقدس کی خاطر ہی سہی ، سپریم کورٹ نے حلف ناموں کا متن منظور کر لیا اور الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا پڑا کہ امیدوار وں کے کاغذات حلف نامے کے بغیر نا مکمل رہیں گے۔

اخبارات اور چینل پر تو اس کے خلاف شور کم تھا لیکن سوشل میڈیا پر تو ایک قسم کا بھونچال تھا۔ یہ بھونچال امید افزا ہے کہ لوگ جاگ رہے ہیں۔

لوگ کیوں نہ جاگیں، ان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ کیوں الیکشن کمیشن یا کسی اور ادارے پر اکتفا کیا جائے۔ پاکستان میں اگر یہ ادارے ہی صحیح کام کر رہے ہوتے تو پاکستان موجودہ حالات سے دوچار نہیں ہوتا۔
ملک کی معیشت بیٹھتی جارہی ہے۔ جس ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہو، جس ملک کے پڑوس میں واقع ممالک اس سے دشمنی پر کمر بستہ ہوں، جس ملک کے اندر اس کے اپنے ملازمین جماعت علی شاہ، اسد درانی اور عبید اللہ خٹک، مشتاق ریئسانی، منظور کاکا وغیرہ وغیرہ جیسے ہوں ، اس ملک کے منتخب نمائندوں پر ضرورت سے زیادہ ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن پاکستان میں عوام کے منتخب نمائندوں نے ان کے خلاف پائے جانے والے تاثرات کو زائل کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہے۔

لوگ اسی لئے کہتے ہیں کہ حلف نامے کے داخلہ کے بغیر ہونے والے انتخابات کو کیسے منظور کیا جائے اور صاف ستھرے کردار کے مالک افراد کو پارلیمنٹ میں بھیجنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر لوگ اپنے نمائندوں کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں اس کا اندازہ تو درج ذیل نکات سے لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر شہری کو اصلاحات ایکٹ کے خلاف آواز بلند کرنا چاہئے.
01. پارلیمنٹ کے ارکان کو پنشن نہیں ملنا چاہئے کیوں کہ یہ نوکری نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک انتخاب ہے اور اس کے لئے ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی ہے مزید یہ کہ سیاستدان دوبارہ سے الیکٹ ہو کے اس پوزیشن پر آسکتے ہیں
02مرکزی تنخواہ کمیشن کے تحت پارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ میں ترمیم کرنا چاہئے. ان کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر ہونی چاہیئے (فی الحال، وہ اپنی تنخواہ کے لئے خود ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی سے من چاہا اضافہ کر لیتے ہیں)
03. ممبران پارلمنٹ کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری ہسپتال میں ہی علاج کی سہولت لینا لازم ہو جہاں عام پاکستانی شہریوں کا علاج ہوتا ہے
4. تمام رعایتیں جیسے مفت سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے یہی تمام رعایتیں پاکستان کے ہر شہری کو بھی لازمی دی جائیں (وہ نہ صرف یہ رعایت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ان کو انجوائے کرتا ہے اور وہ باقاعدہ طور پر اس میں اضافہ کرتے ہیں ۔
05. ایسے ممبران پارلیمنٹ جن کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا جن کا ریکارڈ خراب ہو حال یا ماضی میں سزا یافتہ ہوں موجودہ پارلیمنٹ سے فارغ کیا جائے اور ان پر ہر لحاظ سے انتخابی عمل میں حصّہ لینے پر پابندی عائد ہو اور ایسے ممبران پارلیمنٹ کی وجہ سے ہونے والے ملکی مالی نقصان کو ان کے خاندانوں کی جائیدادوں کو بیچ کر پورا کیا جائے۔.
06. پارلیمنٹ ممبران کو عام پبلک پر لاگو ہونے والے تمام قوانین کی پابندیوں پر عمل لازمی ہونا چاہئے.
07. اگر لوگوں کو گیس بجلی پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو پارلیمنٹ کینٹین میں سبسیڈائزڈ فوڈ کسی ممبران پارلیمان کو نہیں ملنی چائیے
08. ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سیاستدانوں کے لئے بھی ہونا چاہئے.

اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہونا چاہئے اگر میڈیکلی ان فٹ ہو تو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے ۔ ( پارلیمان میں خدمت کرنا ایک اعزاز ہے، لوٹ مار کے لئے منافع بخش کیریئر نہیں )
09. ان کی تعلیم کم از کم ماسٹرز ہونی چاہئے اور دینی تعلیم بھی اعلیٰ ہونی چاہیئے اور پروفیشنل ڈگری اور مہارت بھی حاصل ہواور NTS ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہو.
10. ان کے بچے بھی لازمی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں
11. سیکورٹی کے لیے کوئی سرکاری گارڈز رکھنے کی اجازت نہ ہو ۔
لوگوں کے اس طرح کے خیالات ہیں اور بعض تو بہت ہی زیادہ ترش ہیں۔ فوج ہو یا سویلین حکومت، انہیں یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان میں حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے بتائے یا کہے جاتے ہیں۔

بڑے گھرانوں اور ٹی وی چینل کی دنیا سے باہر نکل کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ لوگ کن درد ناک حالات میں زندہ ہیں۔ لوگوں کو اگر ان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی محسوس نہیں ہوگی تو انہیں اس بات سے کیا غرض ہوگی کہ کس کی حکومت ہے ۔

میری بات کو سمجھئے کہ لوگوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوگا کہ کس (؟) کی حکومت ہو۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ پاکستان کے مقتدر ادارے معالات اور حالات کا ادراک کریں ۔ انتخابات کو تماشہ بننے سے روکیں اور آنے والی پارلیمنٹ کو ’’پیشہ ور‘‘ سیاست دانوں سے محفوظ رکھنے کی سعی کریں۔ ختم شد۔

مزید :

رائے -کالم -