سیاست دان عوام کے بدلے ہوئے موڈ کو سمجھیں

یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے اُردو کے دو محاورے یاد آ رہے ہیں۔ پہلا محاورہ ہے: ’’نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑ گئے‘‘ اور دوسرا: ’’آسمان سے گھرا کھجور میں اٹکا‘‘۔ عوامی نمائندوں نے نامزدگی فارم سے جو خانے خاموشی سے نکال باہر کئے تھے، سپریم کورٹ کے حکم سے بیانِ حلفی کی شکل میں اُن سے زیادہ معلومات نامزدگی فارم میں مانگ لی گئی ہیں، سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس بیانِ حلفی کو سپریم کورٹ نے اپنے روبرو دیا جانے والا بیانِ حلفی قرار دیا ہے، جس کے غلط ثابت ہونے پر نااہلی کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کی کارروائی بھی کی جائے گی۔ جون 2018ء کو چھپنے والے اپنے کالم بعنوان: ’’اپنے نمائندے کے بارے میں جاننا عوم کا بنیادی حق‘‘ میں کہہ چکا ہوں کہ عوام سے معلومات چھپا کر کوئی عوامی نمائندہ جمہوریت کے حقیقی معیار پر پورا نہیں اُتر سکتا۔
یہ مضحکہ خیز صورت ہو گی کہ لوگ ایک ایسے شخص کو اپنا ووٹ دیں، جس کے بارے میں جانتے ہی نہیں کہ وہ کس قماش کا آدمی ہے؟شاید عین الیکشن کے موقع پر خاموشی سے ترمیم کرنے والوں کی منشاء یہی تھی کہ اسے اب بدلا نہیں جا سکے گا۔
لاہور ہائی کورٹ کی جج عائشہ ملک کی عدالت میں اِس حوالے سے کیس دسمبر2017ء سے چل رہا تھا، مگر ایک منصوبے کے تحت حکومت اس میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ دلچسپی لی تو اُس وقت جب انتخابی شیڈول کا اعلان ہو چکا تھا۔مقصد یہی تھا کہ یہ معاملہ غیر متعلقہ ہو جائے اور کسی کے پاس یہ گنجائش ہی نہ رہے کہ کوئی نامزدگی فارم کو تبدیل کر سکے۔
جب جسٹس عائشہ ملک نے فیصلہ سنایا تو یہی کہا گیا کہ انہیں شیڈول کے بعد یہ فیصلہ نہیں دینا چاہئے تھا۔ اسی نکتے کی بنیاد پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا،جو 25جولائی کو عام انتخابات ہر قیمت پر کروانے کا وعدہ کر چکی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے پہلا کام تو یہ کیا کہ جسٹس عائشہ ملک کا فیصلہ معطل کر دیا اور پھر سپریم کورٹ کے بنچ نے ایک ایسا فیصلہ دیا، جس نے ایک طرف بے یقینی کا خاتمہ کر دیا تو دوسری طرف شفاف انتخابات کی راہ ہموار کر دی۔
میرا تو خیال ہے کہ بیانِ حلفی میں امیدواروں سے جتنی معلومات مانگی گئی ہیں، کئی ایک تو انہیں دیکھ کر انتخابات میں حصہ لینے کا خیال ہی ترک کر دیں گے۔بیانِ حلفی کیا ہے؟۔۔۔ کسی بھی امیدوار کا پورا ایکسرے ہے۔
نہ صرف اُس کے ماضی، بلکہ اولاد کی شکل میں اُس کے مستقبل کی بھی تمام معلومات طلب کی گئی ہیں۔ وہ تمام سوالات جو پاناما لیکس کی شکل میں سامنے آئے، انہیں سوالات کی صورت میں اس بیانِ حلفی کے ذریعے پوچھ لیا گیا ہے۔
بچوں کے کاروبار تک کی معلومات مانگی گئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتنے فوجداری مقدمے درج ہوئے؟ اُس کا بھی پوچھا گیا ہے۔ بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی دینا ہوں گی اور اپنے تمام منقولہ و غیر منقولہ اثاثوں کی بابت بھی بتانا پڑے گا۔یہ بیان حلفی کچھ ایسا بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے انتخابات میں حصہ لینے والے کا کوئی گوشہ بھی اُوجھل نہیں رہے گا۔ ظاہر ہے یہ ایسی چیز ہے جس سے بہت سے امیدوار بچنا چاہیں گے۔یہاں تو لوگ اپنی پوری آمدنی ظاہر نہیں کرتے کہ کہیں ٹیکس نہ لگ جائے، ہر دکاندار اس کو چھپاتا ہے، پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر، جو روزانہ لاکھوں کماتے ہیں، اپنے گوشواروں میں اسے درج نہیں کرتے،کیونکہ وہ کسی حلف کے تابع نہیں ہوتے،جبکہ یہاں سب کچھ حلف کے ذریعے بیان کرنا ہے۔
پاکستان میں تو عام شہری کبھی درست معلومات دیتے ہوئے ہچکچاتا ہے، چہ جائیکہ عوامی نمائندے جن کا رہن سہن تو شاہانہ ہوتا ہے،مگر اُن کے ٹیکس گوشوارے دیکھے جائیں تو ایک 17 گریڈ کے ملازم سے بھی کم انہوں نے ٹیکس دیا ہوتا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جن کا قومی ٹیکس نمبر ہی نہیں، اب ٹیکس نمبر بھی دینا پڑے گا اور آمدنی کے مطابق ٹیکس کا ثبوت بھی۔
جب تک یہ گوشوارے الیکشن کمیشن کے پاس تھے اور وہ ارکانِ اسمبلی سے تفصیلات مانگتا تھا، تو اُلٹی سیدھی تفصیلات دے کر جان چھڑالی جاتی تھی، کسی مخالف نے اگر گوشواروں کو چیلنج کر دیا تو الیکشن کمیشن نے ایکشن لے لیا،وگرنہ سب ردی کی ٹوکری میں پڑا رہتا تھا۔
پھر یہ بھی ہے کہ اس حمام میں سب برہنہ ہوتے تھے،اِس لئے کوئی دوسرے کی طرف انگلی نہیں اٹھاتا تھا۔جہاں نہیں بنتی تھی، وہاں انتخابی عذر داریاں داخل کی جاتیں اور درست ثابت ہونے پر نااہلی بھی ہو جاتی، مگر اِس بار معاملہ کچھ دوسرا ہو گیا ہے۔
علیحدہ سے بیان حلفی داخل کرنے کی شرط نے بڑے بڑوں کے کس بل نکال دیئے ہیں۔گیارہ جون تک یہ بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔گویا ایک افتاد ہے جو ٹوٹ پڑی ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے کردار نے معاملہ بہت مشکل بنا دیا ہے۔عام طور پر بیان حلفی کو اوتھ کمشنر کے سامنے دیئے گئے بیان کا درجہ حاصل ہوتا ہے،لیکن اس بیان حلفی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ریٹرننگ افسر کے سامنے دیا جائے گا اور قانون کی نظر میں یہ سمجھا جائے گا کہ بیان سپریم کورٹ کے روبرو دیا گیا ہے۔اس طرح غلط بیانِ حلفی دینے پر توہین عدالت کا آپشن بھی رکھ دیا گیا ہے،جس کی وجہ سے 62-63 کی شقوں کے تحت تاحیات نااہلی بھی ہو سکتی ہے۔چیف جسٹس نے بالکل صحیح کہا ہے کہ نامزدگی فارم میں تبدیلی چالاکی کے ساتھ کی گئی،اسے خاموشی سے روبہ عمل لایا گیا، لیکن اس چالاکی پر قوم کی طرف سے جس قسم کا ردعمل سامنے آیا، اُس کی چالاکی کرنے والوں کو شاید اُمید نہیں تھی۔
سوشل میڈیا پر روزانہ ہزاروں افراد یہ کہنے لگے تھے کہ اگر نامزدگی فارم یہی رہا جس میں امیدوارکے حوالے سے ذرہ بھر معلومات نہیں ہیں، تو وہ ایسے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے، ووٹ نہیں ڈالیں گے۔
اسے آپ حماقت ہی کہہ سکتے ہیں کہ عوام کو جو پہلے ہی50 فیصد ووٹ ڈالنے آتے ہیں، جمہوریت کے حوالے سے اتنا بدظن کر دیں کہ وہ اسے ایک کار زیاں سمجھنے لگیں۔
پاکستان میں حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں،عوامی شعور میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے،لیکن حیرت ہے کہ کچھ لوگ ابھی تک90ء کی دہائی والی سیاست کر رہے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ کی بازی گری دکھا کر عوام کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیں گے اور وہ چُپ کر کے اُن کی یہ واردات برداشت کر لیں گے۔ عوامی نمائندے کے بارے میں اگر شفافیت نہیں ہو گی تو جمہوریت کیسے شفاف ہو سکے گی؟اگر بنیادی کردار ہی اپنے آپ کو خفیہ رکھنا چاہتا ہے تو انتخابی عمل عوام کے سامنے کیسے ایک کھلی حقیقت بن سکے گا۔
پھر تو ساری سیاسی جماعتیں دولت مندوں کو ٹکٹیں دیں گی، کیونکہ انہیں پوچھنے والا جو کوئی نہیں۔۔۔ کسی نے کیا پتے کی بات کی ہے کہ اِس بار جو بجٹ پیش کیا گیا، اُس میں یہ پابندی عائد کر دی گی کہ جو ٹیکس گزار نہیں وہ نئی گاڑی بُک نہیں کرا سکتا، جو فائیلر نہیں وہ 50لاکھ سے اوپر کی جائیداد نہیں خرید سکتا، گویا ایک طرف عام آدمی پر اتنی سختی اور دوسری طرف عوامی نمائندے بننے کے خواہش مندوں کو اتنی چھوٹ کہ وہ کچھ بھی نہ بتائیں اور اسمبلیوں میں پہنچ جائیں۔
حیرت تو اِس بات پر بھی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سپریم کورٹ گئے۔ اِس لئے چیف جسٹس نے بجا طور پر استفسار کیا کہ آخر ایاز صادق کیوں اپنی معلومات اپنے ووٹروں سے چھپانا چاہتے ہیں؟ جس پر اُن کے وکیل نے لاجواب ہو کر کہا، نہیں ہم کچھ نہیں چھپانا چاہتے، ہمارے آج کے سیاست دانوں کی حالت دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد آ رہا ہے:
شوکت ہمارے ساتھ عجب سانحہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
ستر سال کی سیاست آخری ہچکیاں لے ہی ہے۔ادارے مستحکم ہو رہے ہیں جوابد ہی کا نظام فروغ پا رہا ہے۔عوام کے اندر اچھے اور برے کی تمیز پیدا ہو رہی ہے۔ اپنے نمائندوں کو لوگ مثالی کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں، برے کردار والوں پر انگلیاں اٹھانے کی رسم پروان چڑھ رہی ہے، مگر ہمارے غفلت میں ڈوبے ہوئے سیاسی اشرافیہ کے افراد ابھی تک ماضی میں زندہ ہیں۔ وہ سیاست کو ایک پرائیویٹ ہابی کلب کے طور پر چلا رہے ہیں، حالانکہ سیاست کا تعلق عوام کی زندگی سے ہوتا ہے۔
اپنے آپ کو ہر قسم کے احتساب سے ماورا کر کے قیادت کے خواب دیکھنے والوں کو ذرا آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد دیکھنا چاہئے کہ ’’ زمانہ کس تیزی سے قیامت کی چال چل رہا ہے‘‘۔