کم کوش توہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی (2)

ایسی بند اور گھٹی فضا میں کرنل غلام جیلانی خان کی زیر نظر تصنیف ’’شمشیرو سناں اول‘‘ خوشبو دار ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ فوج سے حال ہی میں ریٹائر ہونے سے قبل وہ بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک ’’پاکستان آرمی جرنل ‘‘(اردو) کے ساتھ بحیثیت ایڈیٹر منسلک رہے۔
یہ جریدہ 1972ء سے پہلے صرف انگریزی زبان میں شائع ہوتا تھا۔ 1973ء میں آٹھ دس صفحوں کا ایک اردو ضمیمہ بھی اس کے ساتھ شامل کر دیا گیا تھا جو نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا لسانی مزاج افرنگی تھا اور اس کا مخاطب وہ انگریزی دان یا انگریزی خوان طبقہ تھا جس کی مادری زبان انگریزی نہ تھی!۔۔۔ باایں ہمہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارے مخصوص پیشہ ورانہ پس منظر کے سبب ہمارے لئے انگریزی زبان میں عسکری موضوعات پر لکھنا اور پڑھنا قدرے آسان ہے۔
انگریزی زبان میں ان موضوعات کی فصل کا ایک بڑا ’’کھلیان‘‘ موجود ہے، اصطلاحات کی فراوانی ہے اور ان کے مسلسل استعمال کی وجہ سے قلم اور کان ان سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ اس فضا میں یہ فیصلہ کرنا کہ انگریزی زبان والے ’’پاکستان آرمی جرنل‘‘ کے ہم پلہ ایک اردو ایڈیشن بھی ہونا چاہیے ایک قلندرانہ اور جرات مندانہ فیصلہ تھا اور کرنل جیلانی کو یہ ذمہ داری سونپنا ایک نیک شگون بھی۔۔۔ انہوں نے روز اول (اوائل 1985ء) سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اردو ایڈیشن انگریزی ایڈیشن کا چربہ نہیں ہوگا اور موضوعات کے تنوع، زبان کی شیرینی، تحقیق و تصنیف کے معیار اور طباعت کے نکھار میں اپنے انگریزی’’ برادر بزرگوار‘‘ سے کسی صورت بھی کم مرتبہ نہ ہوگا۔
کرنل صاحب کی یہ جرات رندانہ ایک ہی جست میں بہت سی تاریخی کوتاہیوں اور ذہنی رکاوٹوں کو پار کر گئی۔ ان کے اس انداز فکر و ہمت سے نہ صرف اردو زبان کی آبیاری ہوئی بلکہ عسکریت کو اردو کے جامہ میں پیش کرنے کا عظیم موقع ہاتھ آ گیا۔
اب یہ جسم و جامہ کیسے اور کتنے بھلے لگتے ہیں، میں یہ معاملہ قاری پر چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔ ذاتی طور پر میرے لئے یہ ایک نہایت خوشگوار تاثر ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ موضوع اور اسلوب بیان ایک مدت سے ایک ایسے محرک کی تلاش میں تھے جو ان کی اجنبیت دور کرتا اور صدیوں کے بچھڑے ہوؤں کو پھر سے ملا دیتا! الحمداللہ کرنل جیلانی خان ان گنے چنے قلمکاروں میں سے ہیں جن کے قلم نے وہ محرک مہیا کر دیا۔
لیکن عسکریات کی دشت پیمائی کے اس عمل میں اب وہ تنہا نہیں ہیں۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ اس موقع پر ان چند ’’دیوانوں‘‘ کو بھی خراج تحسین پیش کیا جائے جنہوں نے اردو زبان میں عسکریت کی آبیاری کے لئے جوئے شیر لانے کی ٹھان لی۔زبان اور وسائل کی تنگی داماں کا کبھی گلہ نہیں کیا۔
تنہا پن اور مادی وسائل کی کمی کو قوت ایمان، حوصلہ اور عزم کی دولت سے پر کیا۔ اور یوں بہت کچھ لکھ دیا۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اردو جس نے لشکریوں کے درمیان نموپائی اور تلواروں کے سائے میں لڑکپن گزارا اب پھر ایک ایسی زمین میں کاشت کی جا رہی ہے جو اس کا فطری مسکن (Habitat)ہے۔
پاکستان آرمی جرنل کے ادارتی فرائض ادا کرتے ہوئے کرنل جیلانی کے سامنے یہ چیلنج تھا کہ عسکریات کے چند در چند موضوعات کو ان کی تکنیکی اصلیت کو برقرار رکھتے ہوئے عام فہم زبان میں کس طرح ادا کیا جائے اور کس طرح ان بہت سے حضرات کو اردو میں لکھنے کی ترغیب دی جائے جو عسکری فنون کے ساتھ پیشہ ورانہ نسبت تو رکھتے ہیں لیکن اردو زبان میں لکھتے وقت جھجک محسوس کرتے ہیں۔
کرنل صاحب نے دوسرے ’’حربے‘‘ بھی آزمائے ہوں گے لیکن ان کا یہ حربہ زیادہ کارآمد ثابت ہوا کہ انہوں نے خود خالصتاً پیشہ ورانہ (Hard Core) مضامین پر لکھنا شرع کر دیا۔۔۔ زیر نظر تصنیف بارہ برسوں پر پھیلے ہوئے ان کے انہی مضامین کا مجموعہ ہے۔
وہ اردو زبان کے ان نثرنگاروں کے مکتب سے تعلق رکھتے ہیں جو ان افرنگی اصطلاحات کو جو کہ ’’دیسی متبادل‘‘ موجود ہونے کے باوجود ہماری روز مرہ زبان کا حصہ بن چکی ہیں یا حصہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں انہیں اپنی اصلی حالت میں استعمال کرنے میں جھجک محسوس کرتا ہے اور نہ ہی معذرت خواہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روز اول سے ہی اردو زبان کی تعمیر اور خمیر میں یہ صلاحیت اور رجحان نمایاں رہے ہیں کہ پرائے الفاظ کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے ماتحت، اپنی اصلی حالت اور ہئیت میں اپنا لیا جائے۔
ساتھ ہی اب دنیا بھر میں یہ روش جاری ہے کہ سائنسی اور ٹیکنیکل الفاظ اور اصطلاحات کا مقامی زبانوں میں ترجمہ ’’تلاشنے‘‘ اور ’’تراشنے‘‘ کی بجائے انہیں اپنی اصلی صورت اور صوت میں ہی استعمال میں لے لیا جائے۔
لہٰذا کرنل جیلانی صاحب کا اس طرف جھکاؤ نیا ہے اور نہ معیوب۔ تاہم میں ذاتی طور پر اس عمل میں احتیاط کا قائل ہوں اور بوقت ضرورت ٹیکنیکل اور سائنسی الفاظ و اصطلاحات کو چھوڑ کر اردو کے فطری منبع کی طرف رجوع کرتا ہوں۔۔۔ فطری منبع سے میری مراد ہے فارسی اور عربی زبان۔
یہ قدرتی امر ہے کہ جب مضامین کا دور ایک عشرے سے بھی زیادہ مدت پر پھیلا ہوا ہو تو مضامین پر زمان و مکان، وقتی ضروریات اور ہنگامی محرکات کا اثر تو ضرور پڑے گا۔
اس کے باوجود ان مضامین میں ایک منطقی ربط اور ایک فطری تسلسل نمایاں ہے۔ اگر قاری کے ذہن میں منفی تحفظات نہ ہوں تو سارے آرٹیکل تسبیح کے دانوں کی طرح خوبصورتی سے پروئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
عسکریات کے وسیع و عریض دشت کی سیاحی کرتے ہوئے وہ کون سا کونہ ہے جو کرنل صاحب نے نہیں چھانا اور ایک پیشہ ور سپاہی کے لئے وہ کون سی دلچسپی ہے، جس پر انہوں نے طبع آزمائی نہیں کی۔ چونکہ شعر و شاعری کے ساتھ بھی ان کا شغف پرانا ہے، لہٰذا ٹھنڈے ٹھار عسکری موضوعات پر لکھتے ہوئے وہ جگہ بجگہ صفحہ قرطاس پر شعریت کے رنگوں سے لبریز اور خوشبوؤں سے معطر پھول بکھیرتے چلے جاتے ہیں۔
قاری پر کئی بار تحیر کا سحر طاری ہو جاتا ہے کہ وہ ایک خالصتاً ادب پارہ پڑھ رہا ہے یا عسکریات جیسے ادق اور تکنیکی مسائل پر ایک فکر انگیز مقالہ!
مجھے امید ہے کہ کرنل غلام جیلانی خان کی یہ کاوش عسکری لٹریچر میں ایک سنگ میل کا مقام حاصل کرے گی۔ اس کی اشاعت سے عسکریات کا حلقہ قارئین بڑھے گا اور ہر وہ شہری جو اسلام کے جذبہ جہاد سے لگاؤ رکھتا یا پاکستان کے دفاعی شعبہ سے منسلک ہے یا پاکستان کے دفاع اور سیکیورٹی کے مسائل کی وسعت اور گہرائی سے روشناس ہونا چاہتا ہے وہ اس تصنیف سے کماحقہ استفادہ حاصل کرے گا۔
سید رفاقت
لیفٹیننٹ جنرل
(نشان امتیاز(ملٹری)، ستارہ بسالت، تمغہ قائداعظم)
7۔چک لالہ سکیم، راولپنڈی
12اپریل 1997ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے جنرل سید رفاقت کا پیش لفظ تو آپ کے سامنے رکھ دیا ہے لیکن اندر سے اپنے آپ کو خود ستائی کا مجرم بھی سمجھ رہا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ جنرل صاحب کی یہ تحریر کس تناظر میں لی جائے گی۔
لیکن میں نے اس کا ایک حرف تک نہیں کاٹا۔اور خودستائی والے حصے بھی جوں کے توں رہنے دیئے ہیں۔ میرا مقصود یہ تھا کہ آپ کو بتاؤں کہ افواجِ پاکستان میں سینئررینکس میں بھی ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی اردو تحریریں، اردوئے معلیٰ کے زمرے میں بھی شمار کی جا سکتی ہیں۔
مقامِ افسوس ہے کہ پاکستان آرمی نے اس زبان کی آبیاری میں کشادہ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا جس میں اس تنظیم کا ہر سپاہی اور ہر آفیسر نہ صرف اظہارِ مدعا کر سکتا ہے بلکہ ایسا اسلوبِ نگارش بھی استعمال اور اختیار کر سکتا ہے جسے دنیا کی عظیم زبانوں کے عسکری ادب کے برابر شمار کیا جا سکتا ہے۔
میں نے تابہ مقدور، انگریزی ادب کے نثری اور شعری سرمائے کا بغور اور بالالتزام مطالعہ کیا ہے۔ اس دوران بارہا مجھے اردو کی تنگ دامانی کا احساس ہوا۔
درحقیقت یہی احساس، ریٹائرمنٹ کے بعد میرا مشن بن گیا۔ ’’شمشیروسناں اول‘‘ کی کتابی اشاعت کے بعد میں نے کئی ملٹری کلاسیکی کتب کے اردو ترجمے کئے اور کئی طبع زاد تصانیف کا مصنف بھی بنا۔
ان میں ایسی تصانیف بھی شامل تھیں جو پیشہ ورانہ اور تکنیکی حوالوں سے ایک چیلنج کی حیثیت میں میرے سامنے آئیں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان آرمی جب تک اعلیٰ ترین کمانڈ لیول پر یہ فیصلہ نہیں کرے گی کہ اردو کو اپنی سروس کے جملہ شعبہ جات میں کم از کم انگلش کا ہم پلہ اور متبادل قرار دے کر اس کی سرپرستی کا بیڑا اٹھانا ہے، تب تک اردو کا عسکری ادب (میری مراد خالص دفاعی اور عسکری موضوعات پر محیط ادب سے ہے) مقدار اور معیار کے تناظر میں ادھورا اور ناتمام رہے گا۔
میرے خیال میں تو یہ اتنا بڑا اور اہم کام ہے کہ اس کے لئے GHQ میں ایک الگ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جانا چاہیے جو معروف اورمروجہپیشہ ورانہ شرائط کا پابند نہ ہو۔ اس ڈائریکٹوریٹ کی ٹی او ای (TOE) بھی اسی طرح طے کی جائے جس طرح باقی پروفیشنل شعبوں اور برانچوں کی کی جاتی ہے۔
ہم ایک عرصہ سے دیکھ رہے ہیں کہ ٹی وی چینلوں پر حاضر ہو کر حاضر سروس اور ریٹائرڈ سینئر آفیسرز اردو میں اسی روانی سے بول رہے ہوتے ہیں جس طرح کوئی اہلِ زبان مہمانوں سے انٹرایکشن کے دوران بولتا ہے۔۔۔ نام لینے میں کوئی قباحت نہیں۔
آئی ایس پی آر کے موجودہ ڈی جی، جنرل آصف غفور کو ہم آئے روز ٹیلی ویژن پر سنتے ہیں۔ ان کی زبان تکنیکی موضوعات کی ’’مشکل کشائی‘‘ بھی اس انداز میں کرتی ہے جس میں وہ اپنے سینئر اور جونیئر افسروں سے سروس سے متعلق موضوعات کو انگریزی میں بیان کرتے ہوں گے۔۔۔ ہم پاکستانیوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم ذولسانی (Bi-lingual) اندازِ تحریر و تقریر پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ جنرل آصف غفور کے کئی پیشرو بھی اسی صفت سے متصف تھے۔
اور جہاں تک ریٹائرڈ لاٹ کا تعلق ہے تو ہم روزانہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ افواج پاکستان کی ہر سروس (آرمی، نیوی، ائر فورس) کے سینئر رینک کے کئی آفیسرز بہت روانی اور آسانی سے اردو میں اظہارِ مدعا کر رہے ہوتے ہیں۔
طلعت مسعود، امجد شعیب، اکرم اعوان، شہزاد چودھری، شاہد لطیف، عبدالقیوم، اسد، حارث، فاروق اور بہت سے دوسرے نام ذہن میں آ رہے ہیں جو اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ گیسوئے اردو بہت تیزی سے شانے (کنگھی) کی منت پذیری سے آزاد ہوتی جا رہی ہے۔
میں مذکورہ بالا حاضر سروس اور ریٹائرڈ آفیسرز کی خدمت میں گزارش کروں گا کہ وہ جس برجستگی سے ٹی وی پر آکر سیاسی، بین الاقوامی اور علاقائی موضوعات پر لب کشائی کر رہے ہوتے ہیں، تھوڑی سی ہمت کرکے اس پروفیشن کی تحریری ترجمانی کا حق بھی ادا کرنا شروع کریں جس نے ان کو اس اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچایا اور فائز کیا ہے!