رمضان کا آخری عشرہ اور اعتکاف
صیامِ ماہ رمضان ،اعتکاف اور لیلۃ القدر کی تلاش اتنا عظیم عمل ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مواقع پر اللہ اپنے بندوں پر فخرکرتا ہے۔ امام بیہقی نے حضرت انس بن مالکؓ کی روایت نقل کی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبریل ؑ ملائکہ کے ایک جھرمٹ میں اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو اس وقت کھڑاہوا یا بیٹھا ہوا اللہ عزوجل کا ذکر کر رہا ہو(جاگ رہا ہو اور عبادت کر رہاہو)،پھر عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر کرتا ہے اور انھیں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!اس اجیر (مزدور)کی جزا کیا ہے جس نے اپنے ذمے کا کام پورا کردیا۔فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ اے میرے ملائکہ ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض ادا کردیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔پھر اب یہ گھروں سے(عید کی نماز ادا کرنے اور)مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیں اور میری عزت اور میرے جلال کی ،اور میرے کرم اور میری علوِّشان کی،اور میری بلند مقامی کی قسم ہے کہ میں ان کی دعائیں ضرور قبول کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:جاؤ میں نے تمھیں معاف کردیا اور تمھاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ اس حالت میں پلٹتے ہیں کہ انھیں معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘(سنن بیہقی )
سید مودودیؓ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ سال کے سال اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے کیونکہ انھوں نے رمضان کے روزے رکھے اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو عبادت کرتے رہے۔ پھر عید کے روز نماز کے لیے نکلے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس کے ہاں سے مغفرت اور مہربانیاں حاصل کرکے پلٹتے ہیں۔‘‘ (کتاب الصوم،ص266)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام دنوں میں بھی عبادت کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے مگر رمضان میں تو شان ہی نرالی ہوتی تھی،شعبان ہی میں کمرِ ہمت باندھ لیتے اور رمضان کی آمد کے ساتھ نیکیوں میں یوں مشغول ہو جاتے جیسے تند و تیز ہوا چلنے لگتی ہے۔ پھررمضان کا آخری عشرہ تو بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہماک و وارفتگی کی ایسی تصویر پیش کرتا کہ سبحان اللہ!حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زبانی امام مسلم نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ رمضان کے آخری عشرے میں عبادت الٰہی میں جس قدر محنت و مشقت فرمایا کرتے تھے،اس کی مثال کسی اور زمانے اور ایام میں نہیں ملتی۔
جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مؤکدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سال کے سوا ہمیشہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارا۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد پر نکل جانے کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے اور اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس کے بجائے بیس روز کا اعتکاف فرمایا۔اتفاق سے یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری اعتکاف تھا۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال ہمارے اوپر سایہ فگن ہوتاہے۔اس میں امت مسلمہ کے لیے اللہ نے اپنی بے پایاں رحمت سے لیلۃ القدر کی نعمتِ عظمیٰ مقدر کر رکھی ہے۔اس کی تلاش پورے رمضان المبارک میں ہونی چاہیے مگر آخری عشرہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔جو مسلمان بھی اعتکاف کر سکتا ہو اُسے اپنا دامن بھرنے کے لیے ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
آپ دس روز اعتکاف نہ بھی کرسکیں تو مسجد میں کچھ دیر کے لیے بھی اعتکاف کی نیت سے بیٹھ سکتے ہیں۔بہرحال مطلوب تو یہی ہے کہ آپ اعتکاف میں دس روز لگائیں۔یہی مسنون اعتکاف ہے۔یہ اعتکاف اجتماعی ہو تو اس کے نتائج و ثمرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔یہ بات قابل ترجیح ہے کہ اپنے محلے یا بستی کی مسجد میں آپ اعتکاف کریں۔اعتکاف کے لیے اپنے ساتھی پہلے سے تلاش کرلیجیے۔ جو ساتھی آپ کی نظرمیں ہیں اور جن کو آپ دین حق کا کارکن اور ہم سفر بنانا چاہتے ہیں ان سے رابطہ کر لیجیے۔اعتکاف کے دس دنوں میں آپ اپنے اندر جتنا ذہنی انقلاب برپا کر سکتے ہیں شاید پورے سال میں اتنا ممکن نہ ہو۔
اعتکاف کے دوران دنیوی باتوں اور دلچسپیوں سے مکمل اجتناب کیجیے۔ اعتکاف سنت کے عین مطابق ہونا چاہیے۔معتکِفانتہائی اشد ضرورت کے تحت اپنے معتکَف (اعتکاف کے لیے مختص گوشہ) سے باہر نکل سکتا ہے مثلاً قضائے حاجت اور وضو وغیرہ کے لیے یا غسل واجب ہو جائے تو غسل کے لیے۔ اگر کوئی شخص کھانا پہنچانے والا نہ ہو تو کھانا لانے کے لیے جا سکتا ہے مگر کسی سے کوئی غیر ضروری بات وغیرہ نہیں کرسکتا۔ یہ سارا عرصہ ذکروفکر،نفل و عبادت،مطالعہ و تلاوت، تعلیم و تعلّم اور خیر و بھلائی کے لیے وقف کردینا چاہیے ۔سہولت کے مطابق پورے چوبیس گھنٹے کا ٹائم ٹیبل پہلے سے ہی بنا لیجیے۔ دوران اعتکاف اس میں ردوبدل کرنا پڑے تو بھی مضائقہ نہیں۔اعتکاف کو محض استراحت اور نیند کا ذریعہ نہ بنائیے۔اس کے دوران خیر و برکت سے اپنا دامن بھرنے کی فکر کیجیے۔لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو بیشتر حصہ عبادت اور تلاوت میں گزاریے۔دل میں یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے آپ کو لیلۃ القدر کی نعمت عطا فرمائے گا۔ لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو سنت کے مطابق خوب دعائیں کیجیے۔خصوصاً اللہ سے عفو و درگزر اور دوزخ سے نجات کی التجا کیجیے۔
خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہیں مگر ان کا اعتکاف گھروں میں ہوتا ہے۔ اپنے حالات کے مطابق اپنے گھروں میں دوران اعتکاف جن باتوں کے اہتمام کا تذکرہ بالائی سطور میں ہواہے، خواتین کوانھی پر عمل کرناچاہیے۔ اگر خواتین کا کوئی ادارہ یا مرکز ہو اور وہ وہاں مقیم ہوں تو وہ بھی اجتماعی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں تاہم خاتون کا بہترین اعتکاف اس کے اپنے گھر ہی میں ہوتاہے۔اس حوالے سے سیدمودودیؒ فرماتے ہیں:
ازواجِ مطہرات کا اعتکاف مسجد نبوی میں نہیں بلکہ اپنے حجروں میں ہی ہوتا تھا۔ تمام ازواج مطہرات کے حجرے مسجد نبوی کے ساتھ ساتھ تھے اور ہر ایک کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات میں سے جس کے ہاں بھی قیام رکھتے تھے وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے اندر تشریف لاتے تھے۔ چونکہ یہ حجرے مسجد سے متصل تھے اس لئے ازواج مطہرات کو مسجد کے اندر آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی عورتوں کا اعتکاف مسجد میں نہیں ہوتا، بلکہ گھروں ہی میں ہوتا ہے۔ اس لئے ازواجِ مطہرات بھی رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اپنے حجروں میں اعتکاف کرتی رہیں۔ (کتاب الصوم، ص268)
اعتکاف مرد کا ہو یا عورت کا،اس میں روزہ ضروری شرط ہے۔
ہم اس مضمون کا اختتام حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث پر کر رہے ہیں۔ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی اہم امور پر امت کو متوجہ کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :’’اس شخص کی تباہی اور بربادی ہوجائے، جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘ پھر فرمایا : ’’اس شخص کی تباہی اور بربادی ہوجائے، جس کی زندگی میں رمضان آیا اور گزر گیا، مگر اس نے اپنے گناہوں کی مغفرت کا کوئی اہتمام نہ کیا۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ’’اس شخص کی تباہی اور بربادی ہوجائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، مگر ان کی خدمت کرکے جنت کا مستحق نہ بن سکا۔‘‘ (حوالہ : احمد، مسلم، ترمذی)
ایک روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منبر پر تشریف فرما ہونے کے لئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : ’’آمین‘‘۔ پھردوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا ’’آمین‘‘۔ تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر ’’آمین‘‘ کو دہرایا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپؐ نے کس بات پر آمین کہا۔ آپؐ نے جواب دیا :’’جبرئیلؑ نے وہی الفاظ کہے تھے جو میں نے تم کو بتائے ہیں، میں نے اس کے ہر جملے پر آمین کہا۔ آپ خود اندازہ کرلیجیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرئیلؑ کی دعا کس قدر مؤثر ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی جب بھی کسی مجلس میں آئے تو ہم ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہنا ہر گز نہ بھولیں۔ اسی طرح رمضان کو پورے اسلامی آداب کے ساتھ گزارنا چاہیے، تاکہ ہماری مغفرت ہوجائے۔ والدین جنت کا پروانہ ہیں اور ان کی خدمت میں کوتاہی دنیا اور آخرت کا ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ اس خسارے سے بچنے کی سنجیدہ کوشش ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی زندگیوں میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔