فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر447

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر447
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر447

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر نور جہاں اور شوکت حسین رضوی دوبارہ یک جانہ ہوتے تو یہ ان دونوں کے حق میں بہتر ہوتا۔ یہ محض قیاس آرائی ہے ۔ حقیقت میں کیا ہوتا یہ کون جانتا ہے یا جان سکتاہے۔ یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ فلم ’’خاندان ‘‘ نے نور جہاں اور شوکت حسین رضوی کو یک جا کیا تھا اور پھر نور جہاں کا خاندان ہی ان دونوں کی جدائی اور دکھوں کا سبب بن گیا۔ گویا ’’خاندان‘‘ کو نور جہاں اور شوکت صاحب کی زندگیوں میں ایک بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔
ہم نے ایک بار شوکت صاحب کو بہت اچھے موڈ میں دیکھ کر یہ سوال کیا تھا کہ اگر آپ کی اورمیڈم کی شادی نہ ہوتی توکیا یہ آپ دونوں کے حق میں بہتر نہ ہوتا؟

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر446پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


شوکت صاحب نے ایک قہقہہ لگایا پھر سوچ میں پڑ گئے ۔ کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے ’’ارے میاں! تم اللہ میاں کے کاموں میں دخل دینے والے کون ہوتے ہو؟‘‘
ہم نے عرض کی ’’ہم دخل نہیں دے رہے ۔ صرف یہ دریافت کر رہے ہیں کہ آپ کے خیال میں اگر آپ دونوں نہ ملتے تو کیا یہ خود آپ دونوں کے لیے اور فلمی دنیا کے لیے بہتر نہ ہوتا؟‘‘
کہنے لگے ’’ارے میاں ! شیخ چلی جیسے باتیں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ تو وہی بات ہے کہ .....جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟ لیکن جو ہوا ایسا کیوں نہ ہوتا اس لیے کہ یہ اللہ کی رضا اور تقدیر کا فیصلہ تھا پھر کسی اور طرح کیسے ہو سکتا تھا ؟‘‘
پھر کچھ توقف سے پوچھا ’’تم تقدیر اور اللہ کی رضا پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘
ہم نے کہا ’’سو فیصد۔‘‘
بولے ’’ بس تو پھر یہ اگر مگر چونکہ چنانچہ کس لیے ؟ ‘‘
بات ثریا اور نورجہاں کے ذکر سے شروع ہوئی تھی ۔ نور جہاں نے بمبئی کی فضاؤں میں قدم رکھتے ہی ہلچل مچا دی۔ ایک تو پہلے ہی سے نامور تھیں ۔ ایک عالم ان کا پرستار اور مداح تھا۔ بڑے بڑے موسیقار ’’خاندان ‘‘ کے گانے سن کر ہی یہ تمنا کرنے لگے کہ نورجہاں کی آواز سے فائدہ اٹھائیں۔ ہدایت کار ان کی اداکاری سے متاثر ہو کر انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کی آرزو کرنے لگے تھے۔
یوں تو نور جہاں کی بمبئی آمد نے سبھی ہیروئنوں کو متاثر کیا لیکن وہ سب سے زیادہ اثر انداز ثریا پر ہوئی تھی ۔ ان کی آمد سے پہلے ثریا کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ وہ اداکارہ بھی تھیں ار گلوکارہ بھی ۔ اس اقلیم میں ان کی مطلق العنان حکمرانی تھی ۔ جب نور جہاں وارد ہوئیں تو ان کا سنگھاسن ڈانواں ڈول ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نور جہاں گلو کارہ ادکارہ کی حیثیت سے ان سے آگے نکل گئیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ فلمی تاریخ کا حصہ ہے ۔ بمبئی کے سبھی موسیقار نور جہاں کے گن گارہے تھے اور جب وہ بمبئی سے پاکستان آئیں تو کسی استثنا کے بغیر سبھی موسیقاروں نے ان کی کمی کو حد سے زیادہ محسوس کیا ۔ ایک صحافی کایہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ نور جہاں کی بمبئی سے روانگی نے موسیقاروں کی صفوں میں صف ماتم بچھا دی تھی ۔ ایک نقاد کا یہ قوم بھی درست ہے کہ اگر نور جہاں بمبئی سے رخصت نہ ہوجاتیں توماسٹر غلام حیدر لتا مینگیشکر کو گلوکارہ کی حیثیت سے موقع نہ دیتے اور لتا کو وہ عروج اور شہرت نہ ملتی جو بعد میں ان کے حصے میں آئی مگر قسمت کے لکھے کو کون مٹا سکتاہے۔ یہی تقدیر کا فیصلہ تھا۔ اس کے سامنے سبھی کو سرجھکانا پڑتا ہے۔ اگر نور جہاں نے دوسری تمام گلوکاراؤں کو گہنا دیا تھا تو لتا نے ان کی جانشین بن کر رفتہ رفتہ دوسری تمام نامور گلوکاراؤں کی چھٹی کرادی اور پھر بھارت کی فلمی دنیا میں صرف ایک ہی سریلی آواز گونجتی رہی ۔ لتا کی آواز۔
میڈم نور جہاں کی زندگی میں کس کی مجال تھی جو ان کا گیت گا سکتا تھا مگر موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جو حالات کا یکسر تبدیل کر دیتی ہے۔ زندگی میں انسان کا رعب ‘ دبدبہ ‘ شان و شوکت ‘ کروفر ‘ اختیارات ‘ اقتدار چاہے جتنا بھی ہو اس کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ راکھ ہوجاتاہے۔
جو گلو کارائیں نور جہاں کے سامنے آواز نکالتے ہوئے ڈرتی تھیں آج بڑی آزادی سے نور جہاں کے نغموں کا حلیہ بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ اب انہیں نور جہاں کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ حالانکہ ایک زمانہ تھا جب ساری فلمی صنعت نور جہاں کے سامنے دم بخود ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھی ۔ زندگی میں انسان خود کو بہت کچھ سمجھ لیتاہے۔ یہ بھول جاتا ہے کہ آنکھ بند ہوتے ہی سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ دنیا کا یہی دستور ہے مگر میڈم نور جہاں کے نغموں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ صحیح معنوں میں انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے۔ وہ عورت جس کے نام اور ذکر کے بغیر فلم کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا آج اتنی جلدی قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہے۔ ان کے نغمے لاوارث ہوگئے ہیں جن پر جو چاہے اپنا حق جتا سکتاہے۔ یہ تو ان کے فن کے ساتھ ہو رہا ہے۔ دنیاوی معاملات میں بھی ان کی نشانیاں غائب ہورہی ہیں بلکہ ہو چکی ہیں
۔ گلبرگ کے لبرٹی چوک میں ان کی کوٹھی جو کبھی فلم سازوں ہدایت کاروں اور موسیقاروں کے لیے زیارت گاہ تھی اب زمین بوس ہو چکی ہے۔ یہ کوٹھی انہوں نے اپنی زندگی میں ہی فروخت کردی تھی ۔ خریدار نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ‘ ملبا فروخت کردیا۔ اب اس جگہ ایک عظیم الشان پلازا تعمیر ہو چکا ہے۔ نور جہاں ایک قومی سرمایہ تھیں۔ ان کی رہائش گاہ کو ان کی یاد گار کے طور پر قائم رکھا جا سکتا تھا جس میں ان کے نغمات ‘ فلمیں اور دوسری اشیاء محفوظ کی جا سکتی تھیں۔ اگر کوئی ترقی یافتہ ملک ہوتا تو بالکل یہی ہوتا۔ اس جگہ نور جہاں میوزیم ہوتا مگر اب یہاں ایک پلازا ہوگا۔ کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ اس جگہ عرصہ دراز تک برصغیر کی عظیم فنکارہ نے زندگی کے روز و شب گزارتے ہیں۔ دکھ سہے ہیں ‘ خوشیاں سمیٹی ہیں ۔ یہی دنیا کا دستور ہے ۔ اس کے باوجود حضرت انسان اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے ۔
اب شاہ نور اسٹوڈیو کا قصہ بھی سن لیجئے۔ یہ پاکستان کا سب سے پہلا اور سب سے خوبصورت اسٹوڈیو تھا۔ خوبصورت سرسبزلان‘ اونچے اونچے لہراتے ہوئے درخت ‘ پھلواریاں ‘ دلکش عمارتیں ‘کیا نہیں تھا یہاں ۔ اس کے خوبصورت لان اور باغ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے ۔ لوگ سیر کے لیے یہاں آتے تھے ۔ اس اسٹوڈیو میں پاکستان کی اولین یادگار فلمیں بنائی گئی ہیں ۔ کیسے کیسے فنکاروں نے یہاں کام کیا ہے۔ شاہ نور دراصل نور جہاں اور شوکت صاحب کے نام کا مجموعہ تھا جنہیں لوگ سید ہونے کے ناتے شاہ جی بھی کہتے تھے ۔
میڈم نور جہاں اور شوکت صاحب کے جھگڑوں اور مقدمے بازی کے بعد بالآخر ان دونوں کی زندگی میں ہی ان کے حصے بخرے ہوگئے تھے۔ میڈم نور جہاں اور ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کے حصے الگ ہوگئے تھے۔ ایک حصہ شوکت صاحب کے پاس رہ گیا تھا وہ بھی ادھورا۔ اس میں شوکت صاحب اور میڈم کی رہائش گاہ بھی تھی جس میں شوکت صاحب نے ساری زندگی گزاردی۔ میڈم یاسمین سے شادی کے بعد بھی وہ یہیں قیام پذیر رہے اور اسی جگہ انہوں نے آخری سانس لی تھی ۔ اب شاہ نور اسٹوڈیو کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے بلکہ یہ ملبا بھی فروخت کیا جاچکا ہے۔ شوکت صاحب اور میڈم کے بیٹے اور بیٹیوں نے یہ قیمتی زمین فی مرلہ کے حساب سے فروخت کر دی ہے۔ اس طرح ایک اوربہت عظیم فلمی ورثہ اور یاد گار خاک میں مل گئی ہے۔ لے دے کر وہ حصہ رہ گیا ہے جو شوکت صاحب کے پاس تھا۔ کوٹھی میں میڈم یاسمین اپنے دو بیٹوں کے ساتھ رہتی مگر آ س پاس ویرانی ہے ۔ کچھ عرصے بعد اردگرد کی زمینوں میں خداجانے کیسے کیسے گھر بن جائیں گے یا پھر دکانیں اور شاپنگ سینٹر کھڑے ہو جائیں گے ۔ اس ماحول میں میڈم یاسمین کب تک شوکت صاحب کی یادوں کو سمیٹ کر بیٹھی رہیں گی؟ اسٹوڈیو کی حیثیت سے یہ حصہ اب نامکمل اور ادھورا ہے۔
فلم سازی کی رفتار پہلے ہی کم ہوگئی ہے اب اس بے سروسامان اسٹوڈیو میں کون آکرفلم بنائے گا۔ فیض صاحب کے الفاظ میں....
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
یہ ہے انجام نور جہاں اور شوکت حسین رضوی کے عشق اور ملاپ کا جس نے ایک زمانے میں ہندوستان کی فلمی صنعت کو چونکا کر دیکھ دیا تھا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔
نورجہاں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لکھا جا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا جسمانی وجود اور اس کی مادّی نشانیاں تو مٹ جاتی ہیں لیکن اس کی یادیں اور کارنامے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں