سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر کی پھرتیاں
سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے عیدالاضحی اور یکم محرم الحرام کی تاریخوں کا اعلان بھی ابھی سے کر دیا ہے نہ جانے وہ کیوں اتنی جلدی میں ہیں کہ اپنی وزارت کا تیار کردہ قمری کیلنڈر اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کے بعد اب وہ اس ادارے کی رائے کا انتظار کئے بغیر ہی آگے بڑھ گئے ہیں،حالانکہ انہوں نے5 جون کو عیدالفطر کا جو اعلان رمضان المبارک کی ابتدا ہی میں کر دیا تھا، اُسے اُن کی اپنی پارٹی کی صوبائی حکومت نے بھی تسلیم نہیں کیا اور خیبرپختونخوا حکومت نے مفتی پوپلزئی کے اعلان پر صاد کرتے ہوئے4جون ہی کو عید منالی، بظاہر تو یہ دلیل لائی گئی کہ صوبے میں دو دو، تین تین عیدیں ہوتی رہی ہیں،لیکن ہم نے ایک دن عید کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا، حالانکہ دو عیدیں تو پھر بھی ہو گئیں،پشاور شہر اور سوات سمیت مختلف شہروں میں دو عیدیں ہو گئیں،لطیفہ یہ ہوا کہ وزیراعلیٰ محمود خان اور حکومت نے4جون کو عید منائی،لیکن وزیراعلیٰ کے اپنے علاقے سوات کے لوگوں نے اُن کے اعلان کو درخورِاعتنا نہ جانا اور4جون کو روزہ رکھا اور5جون کو عید منائی۔ گورنر شاہ فرمان نے بھی5جون کو عید منائی، دو عیدیں تو ہو گئیں،کریڈٹ کس بات کا لیا جا رہا ہے؟ ایسے میں تو صوبائی حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے کہ اگر اس کا حکم صوے پر بھی نہیں چلتا تو اسے کیا پڑی تھی کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کا انتظار کئے بغیر ہی جو چاند کی رویت کا سرکاری ادارہ ہے ایک پرائیویٹ کمیٹی کے اعلان کو قبول کر لیا، حالانکہ مفتی پوپلزئی کی کمیٹی متنازع اعلانات کی شہرت رکھتی ہے۔
اب صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر سب سے زیادہ نکتہ چینی بھی ایک وفاقی وزیر کر رہے ہیں اور یہ تک کہہ چکے ہیں کہ جن لوگوں نے مفتی پوپلزئی کی کمیٹی کو چاند دیکھنے کی شہادت ریکارڈ کرائی اُن سب پر مقدمات دائر ہونے چاہئیں، کیونکہ 3جون کو چاند کا نظر آنا ممکن ہی نہیں تھا، لیکن یہ مقدمے کرے گا کون؟ صوبائی حکومت نے تو مفتی پوپلزئی کے اعلان کو مان کر عید بھی کر لی اور یہ فیصلہ بھی دے دیا کہ جن لوگوں نے اٹھائیس روزے رکھے، وہ تین دن گزرنے کے بعد ایک قضا روزہ رکھ لیں، اب جو حکومت اپنے فیصلے پر اس حد تک ڈٹی ہوئی ہے فواد چودھری اسے کہہ رہے ہیں کہ وہ چاند کی شہادت دینے والوں پر مقدمہ درج کرائے، ہمارا خیال ہے اس سلسلے میں بھی خود چودھری صاحب ہی کو آگے بڑھنا ہو گا اور وزیراعظم سے کہہ کر مقدمات درج کرانے ہوں گے، پارٹی میں اور تو کوئی اُن کی بات ماننے پر آمادہ نظر نہیں آتا،حتیٰ کہ مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی کہہ رہی ہیں کہ وہ نو بال پر بھی چھکے مارتے ہیں۔جہاں تک چھکے مارنے کی بات ہے فواد چودھری نے یہ بات سچ ثابت کرتے ہوئے عیدالاضحی اور یکم محرم الحرام کی تاریخوں کا اعلان بھی ابھی کر دیا ہے،ذوالحجہ کے مہینے میں عالمِ اسلام کا سب سے بڑا اجتماع مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر ہوتا ہے اور ایام حج کا اعلان اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔سعودی حکومت بڑے اہتمام کے ساتھ حج کی تاریخوں کا اعلان کرتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی تنازعہ نہ ہو،کیونکہ اگر یوم عرفہ ایک دن پہلے یا بعد رکھ دیا جائے تو روزے کی طرح اس کی قضا بھی ممکن نہیں،کیونکہ اس روز دُنیا بھر کے مسلمانوں نے میدانِ عرفات میں جمع ہونا ہوتا ہے، جو حج کا رُکن ِ اعظم ہے۔ یہ رکن اعظم مقررہ دن ہی پر ادا ہو سکتا ہے۔ اب اگر فواد چودھری نے پاکستان میں عیدالاضحی کی تاریخ ابھی سے دے دی ہے تو وہ اپنے سائنسی حساب سے ایام حج کا تعین بھی بآسانی کر سکتے ہیں اور اگر سعودی حکومت چاہے تو اُن کے اسی سائنسی علم سے استفادہ بھی کر سکتی ہے،لیکن غالباً سعودی حکام اس سلسلے میں خود کفیل ہیں اور انہیں ہماری ایسی کسی وزارت کے اعلان کی حاجت بھی نہیں۔
پاکستان میں قمری مہینہ عموماً سعودی عرب سے ایک دن بعد شروع ہوتا ہے، شعبان، رمضان، شوال، ذوالحجہ اور محرم کے قمری مہینوں میں جو اسلامی تہوار آتے ہیں وہ عموماً سعودی عرب کے ایک دن بعد پاکستان میں منائے جاتے ہیں۔ حالیہ عید الفطر بھی سعودی عرب نے4 جون کو منائی اور ہمارے پشاور کے بعض علاقوں اور وہاں مقیم افغان مہاجرین نے بھی اسی دن عید منائی،اب کی بار صوبائی حکومت نے بھی اس معاملے میں عملاً سعودی عرب کے ساتھ ہی عید منا لی، عیدالاضحی اور یکم محرم الحرام کے ایام کو بھی ابھی سے متنازع بنانے کا آغاز کر دیا گیا ہے،کیونکہ جن لوگوں نے ایک دن پہلے عیدالفطر منائی ہے اب تو اُن کا ہر قمری مہینہ ایک دن پہلے ہی شروع ہو گا یہاں تک کہ نیا اسلامی سال بھی ایک دن پہلے شروع ہو جائے گا،کیونکہ پورے پاکستان میں آج شوال کی جو تاریخ ہے صوبہ خیبرپختونخوا اس سے ایک دن آگے ہے، کیا صوبائی حکومت مستقبل میں بھی اپنا اسلامی مہینہ ایک دن پہلے ہی شروع کیا کرے گی؟
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فواد چودھری نے عیدالاضحیٰ اور یکم محرم الحرام کی جن تاریخوں کا اعلان کیا ہے کیا ان کی پارٹی کی صوبائی حکومت بھی انہیں مانے گی یا نہیں، بظاہر مشکل لگتا ہے کیونکہ اگر صوبائی حکومت نے فواد چودھری کا تازہ اعلان مان لیا تو اس کا عیدالفطر کا اپنا اعلان متنازع ہو جائے گا اس لئے وہ اپنے فیصلے پر ڈٹی رہے گی اور یوں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے وفاقی وزیر کو اپنی ہی جماعت کی صوبائی حکومت کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہتر ہوتا کہ ابھی یہ اعلان نہ کیا جاتا، کم از کم قمری کیلنڈر کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کا تو انتظار کرلیا جاتا۔ ویسے بھی ان کے کیلنڈر کو ابھی تک وفاقی کابینہ میں بھی زیر بحث نہیں لایا گیا۔ حیرت ہے وزیراعظم تو اپنے فیصلوں کو منظوری کے لئے کابینہ کے سامنے رکھتے ہیں لیکن ایک وفاقی وزیر فیصلوں کا خود ہی اعلان کرتا چلا جا رہا ہے اور انہیں کابینہ میں پیش کرنے کے تکلفات سے بالانظر آتا ہے، بہتر تھا کہ کابینہ اس معاملے پر تفصیلی غور کرتی، اب تو ایک صوبائی حکومت کا طرز عمل بھی کابینہ میں بحث کا محتاج ہے۔ جس نے ایک دن پہلے عید کرکے نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے اور صوبائی وزیر اطلاعات کے بقول تو اس معاملے کی وزیراعظم سے منظوری بھی لی گئی، وزیر اعظم نے منظوری دی ہے تو اب عیدالاضحیٰ اور یکم محرم الحرام کی تاریخوں کے معاملے پر بھی انہیں کوئی فیصلہ کر لینا چاہئے تاکہ یہ دونوں ایام بھی عیدالفطر کی طرح مختلف دنوں میں شروع نہ ہوں۔ اپوزیشن کی اے پی سی ہفتے بعد ہونے والی ہے جہاں تحریک کا فیصلہ ہوگا، ایسے میں وزیروں، مشیروں اور صوبائی حکومت کی باہمی توتکار کا فائدہ اپوزیشن ہی کو ہوگا، اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔