ففتھ جنریشن وار اور ہمارا قومی انتشار
لاریب، ہم اپنی قومی تاریخ کے انتہائی مشکل، بلکہ مخدوش دور سے گزر رہے ہیں،ہماری معاشیات انتہائی پستی میں پڑی ہوئی ہیں،ہمیں کارِ سرکار چلانے کے لئے درکار وسائل بھی پوری طرح میسر نہیں ہیں،ترقیاتی کاموں کے لئے وسائل تو دور کی بات ہے ہمیں تو عمومی معاملات نمٹانے کے لئے درکار مالی وسائل بھی میسر نہیں ہیں، ٹیکس وصویوں کے2018-19ء میں طے شدہ اہداف بھی حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ 2019-20ء کی طے کردہ5.550 کھرب کی وصولیاں کس طرح حقیقت کا روپ دھاریں گی،اس کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔
معیشت پست روی کا شکار ہے، قومی اقتصادی نمو کی شرح گھٹ چکی ہے اور سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ مہنگائی عام ہے، بے روزگاری کا چلن ہر طرف نظر آ رہا ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ موجود ہیں،قوموں پر ایسے لمحات کبھی کبھی ضرور آتے ہیں، لیکن اگر حوصلہ ہو، قیادت ہو، رہنمائی ہو تو ان مشکلات سے نکلنا اور کامیاب اور کامران ہو کر نکلنا بھی تاریخ اقوام میں رقم ہے،لیکن ہماری حالت دوسری طرح کی ہے۔ افتراق و انتشار کا چلن عام ہے۔ فکری و نظری سطح پر ہی نہیں،بلکہ عملی طور پر بھی ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
ذرا عیدالفطر کو ہی دیکھ لیں پاکستان کی72سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سرکاری طور پر بھی دو عیدیں منائی گئیں۔ ایک طرف حکومت کی رویت ہلال کمیٹی تھی اور دوسری طرف حکمران جماعت کی صوبائی حکومت، جس نے ایک پرائیویٹ شخص (مفتی پوپلزئی) کے کہنے پر 28روزوں کے بعد ہی عید منانے کا اعلان کر دیا اور پھر خود ہی ایک روزے کا کفارہ سرکاری طور پر ادا کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس سے پہلے ایک اور وزیر (فواد چودھری) اپنی ہی حکومت کی مقرر کردہ رویت ہلال کمیٹی کے خلاف عید 5جون کو منانے کا اعلان کر چکے تھے، ہماری وزارت اطلاعات کی مدار لمہام ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بیانات نے بھی جلتی پر تیل چھڑکا۔ ایسا انتشار الامان۔ الحفیظ، خالصتاً دینی معاملے کو جس طرح اُلجھایا گیا وہ ہمارا ہی خاصا ہے ہم اس طرح افتراق و انتشار پھیلانے میں شاید اپنی مثال آپ ہیں۔
ہم تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہے ہیں، بطور قوم ہماری ہلاکت، ہماری طرف دبے پاؤں نہیں کھلے پاؤں بڑھ رہی ہے، اسے کھلی آنکھوں دیکھا جا سکتا ہے،لیکن ہم ہیں کہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں،معاشی عدم استحکام ہمیں نگلنے کو ہے، ایسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہماری مسلح افواج نے ایک لائق تحسین قدم اٹھایا ہے کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ لینے اور افسران نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ نہ لینے کے رضاکارانہ فیصلے کا اعلان کیا ہے، جو لائق تحسین ہے اور قابل ِ تقلید بھی۔
اس میں تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ اسلام دشمن اقوام حربی و ضربی قوت کے لحاظ سے برتری کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ اقوام متحدہ کی تحقیق اور تعمیر کی صلاحیتوں نے انہیں معاشی و جنگی برتری عطا کر رکھی ہے۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قائدانہ صلاحیتوں سے بدرجہ اتم لیس ہیں۔گزری ایک صدی سے ان اقوام نے اپنی برتری قائم کر رکھی ہے اور انہوں نے اِس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کوئی مسلم قوم یا ملک ان کی ہم سری نہ کر سکے وہ ہر شعبے کا تیار مال منہ مانگی قیمت پر مسلمانوں کو دینے کے لئے تیار رہتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں، لیکن وہ اِس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ تیار مال کے حصول کے بعد مسلمان خود کفیل نہ ہو جائیں اور ہمیشہ انہی کے دست ِ نگر رہیں۔
امریکہ کی سعودی عرب کے ساتھ اسلحہ کی حالیہ ڈیل پر نظر ڈالیں کہ انہوں نے اربوں ڈالر کے جدید ہتھیار سعودی حکومت کو فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے،مال کی ترسیل بھی شروع ہو گئی ہے،لیکن کیا سعودی عرب یا اسلحہ حاصل کرنے والے دیگر عرب ممالک اسرائیل کے لئے بھی خطر بن سکے ہیں۔ عربوں کی ساری قوت آپس میں لڑتے اور ایران اور شیعہ اقوام کے خلاف استعمال ہونے کو تیار ہے،جبکہ اسرائیل 1948ء میں اپنے قیام سے لے کر ہنوز قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھی ممالک بشمول امریکہ و برطانیہ روزِ اول سے ہی اسے نہ صرف تقویت فراہم کر رہے ہیں،بلکہ عربوں اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے در پے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں تین چار دہائیوں سے آراستہ جنگی تھیٹر ایسی ہی پالیسیوں کا عکاس ہے اور اب آخری سین کی تیاری مکمل نظر آ رہی ہے۔
اب انہوں نے ایک نئی قسم کی جنگ ”ففتھ جنریشن وار“ ہم پر مسلط کر دی ہے، جس میں ہم خود ہی اس جنگ کے سپاہی بن کر اپنے ہی خلاف صف آراء کر دیئے گئے ہیں۔ اس جنگ کے ذریعے ہمارے اندرونی اختلافات کو بڑھاوا دے کر ہمیں کمزور اور نڈھال کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے اور خوب کامیابی کے ساتھ یہ جنگ جاری ہے۔ مرکز گریز قوتوں کی سرگرمیاں سامنے لائے۔
بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ہونے والی ملک دشمن تحاریک کو دیکھ لیں، دشمن کس قدر کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بھارتی ”را“، افغانی ”این ڈی ایس“ اور امریکی ”سی آئی اے“ کیا یکجان ہو کر ہمارا قومی اتحاد پارہ پارہ نہیں کر رہی ہیں۔ہم سیاسی طور پر بھی افتراق و انتشار کا شکار ہیں۔ ملکی صورتِ حال کو بہتر بنانے کی سوچ کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن کی مخالفت، فطری اور روایتی سطح سے بہت بلند ہو کر دشمنی کی حدوں کو چھو رہی ہے حد تو یہ ہے کہ حکمران جماعت بھی بھرپور افتراق و انتظار کا شکار ہے۔جہانگیر ترین بمقابلہ دیگر، چودھری سرور بمقابلہ دیگر، عبدالعلیم خان بمقابلہ دیگر، فواد چودھری بمقابلہ دیگر وغیر کیا پیغام دے رہا ہے۔
افتراق اور انتشار کی قوتیں ہر سطح پر راج کر رہی ہیں۔فوج کے خلاف بھی مورچہ زنی جاری ہے۔ بی بی سی کی ہماری فوج کے خلاف حالیہ رپووٹ”ففتھ جنریشن وار“ کی ہی کارروائی نظر آ رہی ہے، فوج کو متنازعہ بنا کر ہماری قومی یکجہتی کو کمزور کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں ففتھ جنریشن وار کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور فوجی قیادت کی زبانی ہی معلوم ہو سکا ہے وگرنہ ہم نے تو چپ سادھ رکھی ہے اور بڑے جوش و خروش سے اس جنگ میں اپنے خلاف بھی سپاہی کا کردار ادا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔