تھنک ٹینک 

 تھنک ٹینک 
 تھنک ٹینک 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ہم نے 70 کی دہائی تک گڈگورننس کیلئے قومی سطح پر سول سروس کے علاوہ باقی شعبوں میں بھی تقریباً تمام ضروری ادارے بنا لئے تھے اور اُن کی اُٹھان بھی ٹھیک ٹھاک تھی مثلاً پی آئی اے اور پی ٹی وی اپنے اپنے شعبوں میں بہت اچھی کارکردگی دکھا رہے تھے لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایک ہمہ جہتی زوال شروع ہو گیا جو رُکتا نظر نہیں آ رہا۔ شاید سیاسی عدم استحکام اس کی بڑی وجہ تھی جو بدقسمتی سے اب بھی جاری ہے۔1973ء میں اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف سٹرٹیجک سڈیز کی بنیاد رکھی گئی۔ اس ادارے کا قیام اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ ہمارے ہاں مجموعی طور پر تمام شعبوں میں ریسرچ کو مناسب اہمیت نہیں دی گئی۔ آئیڈیا فارن آفس کا تھا مقصد یہ تھا کہ پالیسیوں کی تشکیل کیلئے اہم شعبوں میں ریسرچ کے ذریعے رہنمائی فراہم کی جائے لیکن پھر وہی ہوا کہ ادارہ وقت کے ساتھ غیرفعال ہو گیا۔ حتیٰ کہ وزارت خارجہ نے اسے ختم کرنے کی سفارش کر دی اور اس کی جگہ وزارت میں پالیسی پلاننگ اور ریسرچ ڈویژن قائم کرنے کا پروگرام بنایا لیکن 1978ء میں ضیاء دور میں ایک لیفٹیننٹ جنرل کو اِس معاملے پر ریویو کیلئے مقرر کیا گیا۔ ریویو کے بعد انسٹیٹیوٹ کو ایک خودمختار ادارے کی حیثیت دے کر فعال کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ 1993ء میں غالباً پہلی بار فارن سروس کے ایک افسر سابق سیکرٹری خارجہ نیاز اے نائیک کو ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا بعد میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر نور حسین 8 سال تک ادارے کے سربراہ رہے۔بریگیڈیئر نور حسین نے ہی ادارے کی موجودہ عمارت بنوائی، اِس سے پہلے انسٹیٹیوٹ مرگلہ روڈ پر ایک کوٹھی میں کام کر رہا تھا۔شیریں مزاری اور ڈاکٹر تنویر بھی ادارے کے کافی عرصے تک سربراہ رہے۔2013ء میں ہمارے یار ڈاکٹر رسول بخش رئیس بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ انہوں نے نیشنل سیکورٹی کانفرنس کا انعقاد کیا اور سنٹر کو بھی فعال کیا۔


سٹرٹیجک سٹڈیز جنرل شائع کرنے کا آغاز  1977ء میں ہوا جس میں 930 ریسرچ پیپر شائع کئے گئے۔ حالات حاضرہ پر مکالمے کے لئے Tuesday Dialogue کے عنوان کے تحت ایک سلسلہ شروع کیا گیا اور اس کے نتیجے میں دفتر خارجہ اور دوسرے متعلقہ اداروں کو مختلف موضوعات پر سفارشات بھیجنے کا آغاز ہوا۔چند سال پہلے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کو ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے ادارے کو فعال کرنے کیلئے قابل قدر کام کیا۔ انہوں نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو فعال کیا اور خالی آسامیوں پر نئے ارکان کا تقرر ہوا۔ہر سال کی پہلی سہ ماہی میں بورڈ کا اجلاس ہوتا ہے۔ دفتر خارجہ کیلئے ایک فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔ 2007ء میں چائنا سٹڈی سنٹر قائم کیا گیا لیکن یہ جلد ہی بوجوہ غیرفعال ہو گیا۔ 2015ء میں اس کے تحت سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اِس مقصد کیلئے ڈاکٹر طلعت شبیرکی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے "PIVOT" کے نام سے سہ ماہی میگزین کا آغاز کیا۔ چین سے متعلق 16 سنٹرز کی سرگرمیوں کو مربوط کیا گیا۔ اس کے علاوہ کچھ نئے سنٹر بھی قائم کئے گئے جن میں آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ سنٹراور انڈیا سٹڈی سنٹر کے علاوہ افغانستان، مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے متعلق سنٹر شامل ہیں۔ سنٹر فار سٹرٹیجک پرسپیکٹو (Centre for Strategic Perspective)کے دائرہ کار میں عالمی طاقتوں کے علاوہ غیرروایتی خطرات جیسے موسمیاتی تبدیلیاں، پانی کے بحران، فوڈ سیکورٹی، سائبر وارفیر، ہائی برڈ وار فیر جیسے موضوعات شامل ہیں۔ سنٹر میں عالمی سیاست، اقتصادیات اور اکنامک ڈپلومیسی پر بھی توجہ دی گئی۔ سنٹر نے کئی عالمی تھنک ٹینکس سے بھی رابطہ قائم کیا اور اس معاملے میں 30 میمورنڈم اور انڈرسٹینڈنگ پر دستخط کئے۔ وژن 2023ء پاس کیا گیا جس کے تحت Islamabad Conclave کے نام سے پالیسی میکرز اور ریسرچرز کے درمیان رابطہ قائم کیا گیا تاکہ Narrative  کی جنگ کیلئے ضروری مواد فراہم کیا جا سکے۔ 2021ء میں بھارت اور چین سے متعلق چار کتابیں بھی شائع کی گئیں۔


 انسٹیٹیوٹ مختلف پروگراموں کے ذریعے عوام کو پاکستان کو متاثر کرنے والے اہم معاملات پر رہنمائی فراہم کرتا ہے وقتاً فوقتاً پاکستانی اور غیرملکی اہم شخصیات کو مخلف موضوعات پر اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے۔ انسٹیٹیوٹ جنوبی ایشیا، چین، جاپان، افغانستان،سنٹرل ایشیا، ایران، مشرق ِ وسطیٰ کے علاوہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، نیوکلیئر ایشوز، دہشت گردی اور سیکورٹی سے متعلق معاملات پر فوکس کر رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -