آئندہ بجٹ اور عوام

اگلے مالی سال کا بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے اور سب کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘ حکومت کی بھی اور عوام کی بھی۔ حکومت کی اس لئے کہ خزانے میں کچھ بھی نہیں‘ کسی ملک سے قرضہ ملنے کے امکانات بھی معدوم ہیں اور ہم آئی ایم ایف نامی حسینہ کا دل بھی اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود موم کرنے میں ناکام رہے ہیں اوپر سے محکمہ خزانہ والوں کا کہنا ہے کہ مجبوری ہے‘ ٹیکس فری بجٹ نہیں دے سکتے‘ یعنی بجٹ میں آئندہ الیکشن کے پیشِ نظر عوام کو کچھ ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن یہ کسر نئے ٹیکس لگا کر یا پہلے سے لگائے گئے ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر پوری کر لی جائے گی‘ اگرچہ بتایا گیا ہے کہ آئندہ بجٹ کا محور ترقی اور عوامی فلاح و بہبود ہو گا، 1100 ارب کا وفاقی ترقیاتی پروگرام معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا، جبکہ شرح نمو اور روزگار کے موقع بڑھانے کے لئے پی ایس ڈی پی کے حجم کو 700 سے بڑھا کر 900 ارب روپے کیا جا رہا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ مہنگائی پہلے چالیس فیصد سے اوپر ہے‘ اس پر مزید ٹیکس لگے تو ہر بندے اور ہر خاندان کے مالی معاملات کا کیا بنے گا؟ یہ سوچ کر سبھی متفکر ہیں۔ پہلے کسی کالم میں لکھا تھا کہ مہنگائی چالیس فیصد ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ یہ کہ سو روپے کی چیز ہم عوام ایک سو چالیس روپے میں خرید رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ ماہ یعنی مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ 38 فیصد تک جا پہنچی تھی اور تب یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ آئندہ مہینوں میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ خدشہ درست ثابت ہو رہا ہے۔ مہنگائی کا بے لگام گھوڑا کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ تا حال پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط کئی ماہ کی بات چیت اور متعدد مطالبات مان لینے کے باوجود نہیں مل سکی اور اس حوالے سے ابھی تک ایک ڈیڈ لاک برقرار ہے‘ یوں حکومت اگلا بجٹ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر پیش کرنے جا رہی ہے اور یہ بجٹ کیسا ہو گا‘ اس کا اندازہ لگا کر بھی لوگوں کی کانپیں ابھی سے ٹانگ رہی ہیں۔
2023ء پاکستان میں الیکشن کا سال ہے اور بجٹ پیش کئے جانے کے محض دو اڑھائی ماہ بعد ہی قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی جس کے بعد عبوری حکومت اس کی جگہ لے گی اور ملک میں عام انتخابات کرائے گی۔ یہ روایت ہے کہ الیکشن کے سال میں حکومتیں ریلیف بجٹ پیش کرتی ہیں تاکہ عوام کو مالی معاملات میں کچھ ریلیف مل سکے اور وہ آئندہ انتخابات میں حکمران پارٹی یا حکمران اتحاد کو ووٹ ڈال کر اسے پھر کامیاب بنا سکیں‘ لیکن اس کے باعث حکومتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ الیکٹ ایبل سیاسی جماعتوں کی کانپیں اس لئے ٹانگ رہی ہوں گی کہ آئندہ عام انتخابات میں ان میں سے کوئی پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی تو وہ ملک کے مالی معاملات کو کیسے سنبھال سکے گی۔
کانپیں ٹانگنے کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ جناب وزیر اعظم نے کہا ہے امید ہے کہ رواں ماہ آئی ایم ایف سے حتمی معاہدہ ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں، پھر بھی مذاکرات ناکام ہوئے تو ہم اپنی کمر کس لیں گے اور کھڑے ہوں گے۔ اب اس کمر کس لینے سے ان کی کیا مراد ہے؟ یہ میں نہیں جانتا‘ لیکن اگر کمر ہی کسنا تھی تو پھر سوا سال کیوں آئی ایم ایف کے پیچھے بھاگتے گزارا‘ یہ پہلے ہی کیوں نہیں کس لی گئی؟ اور پھر یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کمر کس کی کسنی ہے۔ حکومت اپنی کمر کسے گی یا عوام سے کہا جائے گا کہ وہ اپنی کمر کس کر مزید مہنگائی اور افراطِ زر کے لئے تیار ہو جائیں‘ اور کیا ایسا کرنے کے خدشات پیدا ہونا عوام کی کانپیں ٹانگنے کے لئے کافی ہیں؟
ایک خبر یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے 6.5 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 9ویں اور 10ویں جائزے کو جمع کرنے کا عندیہ دیا ہے‘ تاہم فریقین اب تک آنے والے بجٹ کے اعداد و شمار کے بارے میں وسیع تر معاہدہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی فریق نے آئی ایم ایف کے تحت رکے ہوئے فنڈ پروگرام کی بحالی کے لیے تعطل کو توڑنے کے لیے پیر کی شام کو ورچوئل راؤنڈ کا انعقاد کیا تھا۔ اس فنڈ پروگرام کی میعاد 30 جون 2023 کو ختم ہونے جا رہی ہے۔ اگر یہ نواں اور دسواں جائزہ اکٹھا ہو گیا تو کیا اس میں عوام یا حکومت کی کانپیں مزید ٹانگنے کے لئے مواد موجود ہو گا؟ اس سوال پر بھی اب سب کی نظریں ہیں۔
ایک اطلاع یہ ہے کہ رواں سال فروری میں جو منی بجٹ پیش کر کے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے گئے تھے‘ انہیں نہ صرف برقرار رکھا جائے گا بلکہ بعض لگژری اشیاء پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ میں بھی کیا جائے گا۔ سرکاری حکام کے مطابق بجٹ تیاری سے متعلق اجلاسوں میں یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ 170 ارب کے حالیہ منی بجٹ میں روزمرّہ اشیاء پر اضافی جی ایس ٹی (جنرل سیلز ٹیکس) نئے بجٹ میں بھی برقرار رکھا جائے جبکہ درآمدی دودھ، مچھلی، گوشت، جام جیلی، چائے وغیرہ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس بھی برقرار رکھا جائے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ درآمدی دودھ پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد، ڈبے میں بند گوشت اور مچھلی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد، امپورٹڈ چکن اور اس کی دیگر اشیا پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد کیا جائے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ سب کچھ ہو گیا تو اس میں کانپیں ٹانگنے والا کوئی معاملہ ہو گا یا نہیں؟
یہ سب کچھ تو مجبوری ہے لیکن کیا حکومت مارکیٹ پر بھی ایک نظر ڈالے گی جہاں ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا دندنا رہے ہیں اور پہلے سے مہنگائی اور افراطِ زر کی چکی میں پسنے والے عوام کو مزید پریشانیوں کا شکار بنا رہے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ ان مافیاز کو کنٹرول کر کے مہنگائی کی شرح کو آدھا کم کیا جا سکتا ہے‘ لیکن کیا اس بارے میں کوئی سوچے گا؟ اس سلسلے میں کوئی اقدام ہو سکے گا۔ مہنگائی ان دنوں یقیناً ایک عالمی مظہر ہے لیکن مہنگائی بڑھانے والے مقامی عناصر کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا انہیں کنٹرول نہیں کیا جا سکتا؟ اس پر آئندہ کبھی بات کریں گے۔