بڑھتی ہوئی خوفناک آبادی

لوگ روز گار کے سلسلے میں بڑے شہروں کی طرف آنا شروع ہو گئے، انہیں کہیں نہ کہیں ملازمت مل جاتی تھی۔ کم تعلیم یافتہ کو چھوٹے درجے کی اور زیادہ پڑھے لکھے کو زیادہ بہتر عہدہ اور اچھی تنخواہ پر ملازمت مل جاتی تھی مگر جوں جوں ملک کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا ان کی طلب کو دیکھتے ہوئے پالیسی میکرز نے عارضی ملازمت کے در کم تنخواہ پر کھول دیئے چنانچہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ ضرورت مند اس پر راضی ہو گیا وہ بڑے بڑے اداروں میں کم تنخواہ سہولت پر کام کرنے لگا پھر معاہدہ ختم ہو جاتا پھر نئے سرے سے اس کو ملازمت پر رکھ لیا جاتا۔ دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی۔ اسے معلوم ہے کہ اگر یہاں سے ملازمت چھوڑ دی تو کہیں اور ملازمت نہیں ملے گی جب بھی کبھی کوئی فرد ملازمت چھوڑ دیتا یا فوت ہو جاتا۔ تو اس کی جگہ نوکری حاصل کرنے کے لئے لمبی لمی قطاریں لگی ہوتیں۔
عارضی ملازم کا دوسرا مسئلہ اس کی عمر تھی۔ اب اُسے دوسری جگہ سرکاری ملازمت بھی نہیں مل سکتی تھی چنانچہ اسے کم تنخواہ اور سخت محنت سے کام کرنا پڑتا۔ وہ اپنے بچوں کے بارے میں کوئی فیملی پلاننگ نہیں کر سکتا وہ یہی سوچتا اللہ نے رزق دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کی آمدنی سے زیادہ بچے پیدا ہو گئے بچے اب چلنے کے قابل ہوئے تو مختلف ہوٹل فیکٹری کوٹھی کار والے انتظار میں بیٹھے تھے اس کی مدد کو آن پہنچے۔ اس کے چار بچوں کو ملازمت مل گئی اور چھوٹے کے نام سے پکارا جاتا کھانے کو بچا ہوا مل جاتا۔ کوئی ٹپ بھی دے دیتا۔
تعلیم و تربیت اس کا مسئلہ نہیں اب اسے اور بچے پیدا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا وہ سوچنے لگا۔ جتنے بچے ہوں گے وہ کما کر لائیں گے۔ ہمارے بچوں نے کون سا بڑا آدمی بننا ہے باپ بھی ملازمت کر کے تھک گیا تھا۔ وہ گھر پر آرام کرنے لگا۔ بچوں نے کتے پالے تھے وہ بڑے کام کے نکلے چار پائی کے نیچے کتیا اپنے بچوں کو لے کر پڑی رہتی۔ ان کی فروخت کر کے خرچہ پورا کیا جاتا وہ بھی ہر سال بچے پیدا کرتا۔ ایک چارپائی کے ساتھ لٹکا رہتا دو چارپائی کی طرف لیٹے ہوئے ایک کالے سینے کے ساتھ لگ کر دودھ پیتا رہتا۔ پیٹ بھی پھول گیا تھا جسم کی ہڈیاں نمایاں تھیں۔ خوراک کہاں ملتی تھی ایک دن 6 سال کی بچی سگریٹ لینے آئی راقم نے دیکھا۔ وہ ننگے پاؤں کپڑے پھٹے ہوئے تھے ہزار کا نوٹ دے کر باقی رقم دوکاندار نے دی میں اس کے پیچھے گیا اس کا والد ٹریکٹر پر بیٹھا کسی کی اینٹیں چوری کر کے لایا تھا۔ اسے کہا تم بچی سے بہت پیار کرتے ہو اسے جوتی کیوں نہیں پہناتے کہنے لگا تم لے دو۔
میں نے کہا تم اور بچے نہ پیدا کرو کہنے لگا وہ تو ہوں گے۔ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ البتہ کتیا کے پاس تھا جو پلنگ کے نیچے لیٹی اپنے چھ بچوں کو دودھ پلا رہی تھی اس طرح کے مناظر پورے ملک میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں بھی کوئی خالی پلاٹ، گندھا نالہ پل وہاں پر ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پولیو کی ٹیمیں اپنا قرض ادا کرتے ہوئے۔ دشوار راستے طے کرتی ہیں۔ ان کی جھونپڑی میں پہنچ جاتی ہیں جن کے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگاتی ہیں، مگر بڑھتی ہوئی خوفناک آبادی سے انہیں کوئی مطلب نہیں انہیں تمام سہولتیں میسر ہیں۔ پانی، بجلی، فری کوئی ٹیکس نہیں رہائش فری ہر قسم کی امداد ملی جاتی ہے۔ عید الفطر ہو یا عیدالضحیٰ ہو۔ رمضان ہو، ہر طرف سے راشن پانی میسر آ جاتا ہے۔ دینے والے سمجھتے ہیں۔ ہم نے حق ادا کر دیا۔ اگرچہ جس کا استعمال غلط ہے تو ان کا کیا قصور انہوں نے تو اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے کون تحقیق کرے۔ جب تک آبادی کو کنٹرول نہیں کیا جاتا ملک کے ترقی کے منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔ اگر آبادی ملک کے وسائل کے مطابق ہو تو کوئی مشکل نہیں۔ا گر انسان کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملے تو مشکلات تو پیدا ہوں گی۔!