پاکستان کے خلاف ملکی و غیر ملکی سازش

تاریخ کا جبر بتاتا ہے کہ جب بھی کسی مسلم معاشرے کو ملحدانہ اور کافرانہ سوچ نے اپنا شکار کرنا ہو، توسب سے پہلے اس سوچ کے حامل افراد نے معاشرے میں موجود سیاسی اور مذہبی قیادت میں سے دنیادار،غلام منش،خود غرض اور لالچی افراد کا چناؤ کرنا ہوتاہے۔یہ منتخب افراد معاشرے میں چند مخصوص نظریات کو پھیلا کر،عوام الناس کی ذہن سازی کا عمل شروع کر دیتے ہیں۔ نظریے کو مقبول عام بنانے کے لیے کبھی انسانی حقوق کا سہارا لیا جاتا ہے،کبھی مذہب کی من پسند تشریح کی چھتری استعمال ہوتی ہے،کبھی علاقائی عصبیت کو فروغ دیا جاتا ہے،کبھی لسانی نعرہ بازی کو اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی عوام اور اداروں میں تصادم کروایا جاتا ہے۔اس عوامی ذہن سازی کے عمل کے ساتھ ساتھ عوام کے پڑھے لکھے طبقے اور حکومتی اداروں میں موجود بد عنوان اور کرپٹ بندوں کو بھی خریدا جاتا ہے جن کی مدد سے جان بوجھ کرعوام کے حقیقی مسائل کو وقتی طور پر پس پشت ڈالنے کے ساتھ ساتھ اُن کے فوری حل میں بھی رُکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں یوں آہستہ آہستہ عوام کا حکومت اور سرکاری اداروں سے اعتماد اُٹھنے کا آغاز ہوتا ہے جبکہ اگلے مرحلے میں ریاست کی سرحدوں کے محافظ اور سلامتی کے اداروں کے کردار پر انگلی اٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔فوج کے آئینی دائرہ کار اوردفاعی اخراجات کو زیر بحث لا کر اس ادارے کو دفاعی پوزیشن پر لانے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔بد قسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے فوج کا سیاسی میدان میں عمل دخل بڑھ گیاہے جس کی بنا پر سازشی تھیوری میں اگلے مرحلے میں فوج کے سیاسی کردار کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے چنانچہ اس سوچ کو عوام میں عام کرنے کے لیے میڈیا میں سے چند لوگ تلاش کر کے ٹاک شوز میں حساس موضوعات پر ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بحث شروع ہو جاتی ہے۔ یوں عدلیہ،فوج سمیت دیگر آئینی اور حکومتی اداروں پرعوام الناس کی جانب سے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
یہ وہ مقام ہوتا ہے جو کسی بھی ملک کو خطرناک اور خوفناک صورتحال کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ اس غلط روش سے مستقبل میں ملک کی سلامتی متاثر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اگر ہم غور کریں تو پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ملک میں سیاسی بکاؤ مال بکثرت موجود ہے جو اپنی ذات کی تشہیر،ذاتی مفاد،اقتدار اور مال ودولت کے انبار کے بدلے میں ملک سے غداری میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔ملک میں ان دشمن قوتوں کے ایجنٹوں کی مدد کرنے کے لیے سازشی سرکاری افسروں اور دانشوروں کی فوج ظفر موج موجود ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے خاندان باہر،جن کی جائیدادیں باہر اورجن کے کاروبار بھی باہر ہیں۔ذہن میں رہے کہ پاکستان میں دشمن کے ایجنڈے کے تحت ریاستی اداروں کے خلاف عوامی ذہن سازی کے عمل کو بہت پہلے شروع کیا جا چکا تھا جس کا بھرپور مظاہرہ 9 مئی کوسلامتی کے اداروں پر حملے کی صورت میں ہوا۔ ملک دشمن گروہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستانی فوج کے روشن اور اُجلے کردار کو گندہ کرنے کا کھیل کافی وقت سے جاری رکھے ہوئے تھا مگر خوش قسمتی سے پاکستانی عوام کواب ان کے اصل چہرے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور یوں تخریب کاروں کے عزائم بھی بے نقاب ہو گئے ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ انتشار پسند اپوزیشن اپنی ملک دشمنی کی وجہ سے عوام میں اپنی اہمیت اور حیثیت کھو چکی ہے اور خصوصاً اس موقع پر جب افواج پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے لیے عوامی اور اخلاقی مدد کی ضرورت بھی ہو،تو اس موقع پرفوج مخالف بیانیہ عوام کے سامنے ا یک سیاسی پارٹی کے عزائم کو بُری طرح سے بے نقاب کر گیا ہے۔ افسوس اُن محب وطن پاکستانی بہن بھائیوں پر بھی ہے جو سادہ لوح ہیں اور شر پسند عناصر کے کہنے پر اپنی ہی فوج کے خلاف قلم،زبان ہاتھ اورہتھیار کااستعمال کرتے ہیں اور ان جانے میں کیے جانے والے جرم کی سزا پائیں گے۔
اُن کو سمجھ جانا چاہیے کہ ہر سیاسی رہنما صرف اپنا الو سیدھا کرتا ہے اور حصول اقتدار کے لیے کارکنوں کی جانیں بھی قربان کرنی پڑ جائیں تو انہیں یہ مہنگا سودا نہیں لگتا۔جیسا کہ اب عمران خان نے 9مئی کے واقعات کی ساری ذمہ داری اپنے کارکنوں پر ڈال دی ہے اور خود کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ماضی میں پاک فوج اور عوام نے ملک میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے اور دونوں فریقوں کے اتحادنے مل کر ہمیشہ دشمنوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا ہے۔ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ہمارا دشمن اپنے تقریباًسارے اہداف پورے کر چکا ہے۔ہماری معیشت تباہ حال،عوام جاہل،سیاسی قیادت بکاؤ مال،مذہبی رہنما امداد کے بھوکے۔ اب آخری ہدف پاک فوج ہے جس کو ناکام کرنے پر تیزی سے عمل جاری ہے۔بد قسمتی سے اس عمل میں بیرونی قوتوں کے ساتھ ساتھ ملکی اندرونی قوتیں بھی شامل ہیں جو ہر حال میں ملک میں بدامنی پھیلا کر اپنے لیے اقتدار اور تحفظ کے راستے تلاش کرنے کے چکر میں ہیں۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ پاکستانی قوم ماضی میں ملک میں امن قائم کرنے کے لیے فوج کی طرف سے دی جانے والی بے شمارجانی قربانیوں کا علم رکھتی ہے اور اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ مضبوط پاک فوج کی موجودگی سے ہی پاکستان قائم ہے وگرنہ دشمن کب کا ہمارے ملک کو افغانستان،عراق،شام،فلسطین یا سر ی لنکا بنا دیتا۔