سیاسی استحکام۔ وقت کی ضرورت

سیاسی استحکام۔ وقت کی ضرورت
سیاسی استحکام۔ وقت کی ضرورت

  


 سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک بار پھر کہا ہے اگر سیاسی جماعتیں  الیکشن کی متفقہ تاریخ پر آمادہ ہو جائیں تو یہ ایک بہت اچھی پیش رفت ہوگی۔ سیاسی معاملات سیاسی قوتوں کو ہی حل کرنے چاہیئں۔ گویا ایک بار پھر سپریم کورٹ کی طرف سے سیاسی قوتوں کو ایک بڑا موقع فراہم کیا گیا ہے اور اس امید کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ اب بحسن و خوبی نمٹ جائے گا مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد الیکشن کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ پی ڈ ی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ الیکشن سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا ملک میں ہنگامہ آرائی کو بڑھانا ہے یا امن لانا ہے۔ معیشت بہتر بنانی ہے یا انتشار پیدا کرنا ہے۔ان کی اس بات سے اگر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ اتحادی حکومت اس نکتے پر سوچ رہی ہے کہ معیشت کو بہتر بنائے بغیر الیکشن میں جانا حکومت کے لیے نقصان دہ بات ہوگی تو یہ غلط نہ ہوگا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آئینی مدت کے خاتمے کے بعد اگر الیکشن نہیں ہوتے تو حکومتی سیٹ اپ کیا ہوگا؟ کیا اسی حکومت کو توسیع دینے کی کوئی راہ نکالی جائے گی؟ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک کے دو بڑے صوبوں میں پہلے ہی نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں جن کی مدت کا تعین بھی اب باقی نہیں رہا کیوں کہ وہ 90 دنوں کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ یہ عرصہ گزرے اب دو ماہ سے زائد وقت ہو گیا ہے اگر یہ نگران  حکو متیں چل سکتی ہیں  تو پھر کوئی ایسا سیٹ بھی لایا جا سکتا ہے جو آئینی مدت کے بعد بھی قائم رہے۔  اس وقت صورتحال خاصی مبہم ہے اور کسی نقطے پر پہنچنا آسان نظر نہیں آتا ایسے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس کہ انتخابات کی متفقہ تاریخ طے ہونی چاہیے ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر اس مبہم صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے۔


تحریک انصاف اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے اس میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ سینئر اور پارٹی کے اہم رہنماا سے خیرباد کہہ رہے ہیں۔ زمان پارک کا میلہ اجڑ گیا ہے۔ اس کے دس ہزار سے زائد کارکن اور رہنما جیلوں میں ہیں تحریک انصاف چھوڑنے والے مختلف جماعتوں میں جارہے ہیں یا نئے سیاسی اتحاد وں کا حصہ بن رہے ہیں۔ایسے میں حکومت کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا کہ تحریک انصاف سے انتخابات کے موضوع پر کوئی بات کرے جبکہ دوسری طرف عمران خان نے مذاکرات کے لیے نہ صرف ایک کمیٹی بنا دی  بلکہ وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ان کی اس پیشکش کو صاف لفظوں میں رد کر چکے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ادھر عمران خان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات میں تحریک انصاف نے بطور جماعت کوئی حصہ نہیں لیا اور ان واقعات کی شفاف جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔ گویا وہ ڈیڈلاک جو پہلے عمران خان کی طرف سے تھا اب حکومت کی طرف سے موجود ہے اور مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔ایسے میں سپریم کورٹ کی یہ خواہش کہ سیاسی قوتوں کو مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنی چاہیے ایک مشکل مرحلہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست ختم ہوگئی ہے اور سیاسی منظر نامے پر ایک ٹھہراو نظر آتا ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے ملک میں سیاسی استحکام بھی آجائے گا۔ ِموجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں صرف تین ماہ باقی رہ گئے ہیں۔سیاسی استحکام صرف اسی صورت میں آسکتا ہے جب آئینی مدت کے بعد شفاف الیکشن ہوں۔ نیا جمہوری سیٹ اپ عمل میں آئے۔


حکومت خود تسلیم کر چکی ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے اہم مسئلہ معیشت کی خرابی ہے۔ وزیر خزانہ سمیت وزرا کی طرف سے یہ بار بار کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے باوجود معاہدہ نہیں ہو پا رہا کیا اس کا سبب یہ تو نہیں کہ آئی ایم ایف ملک کی سیاسی بے یقینی کی وجہ سے معاہدہ کرنے سے ہچکچا رہا ہے پچھلے دنوں آئی ایم ایف کے ایک  اہم  عہدے دار کی طرف سے یہ بیان بھی دیا گیا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا جائے جسے حکومت کی طرف سے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا تھا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معیشت کی خرابی بھی اسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔ اس عدم استحکام سے نکلنے کا راستہ اگر حکومت نے یہ نکالا ہے کہ تحریک انصاف کو سیاسی طور پر کمزور کیا جائے، اسے شکست و ریخت سے دوچار کرکے ملک میں استحکام لایا جائے تو یہ کوئی پائیدار سیاسی حل نہیں ہے  اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال بے یقینی کا شکار ہے کسی وقت بھی انتخابات کا نقارہ بن سکتا ہے۔ کیونکہ آئینی مدت کا اختتام قریب ہے اگر اس آئینی مدت کا احترام نہیں کیا جائے گا اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو حالات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جائیں گے نومئی کے واقعات کی ہر سطح پر مذمت کی گئی خود تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف سے بھی ان واقعات کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تاہم ان کی بنیاد پر ملک میں سیاسی عمل کو روکنا کوئی مناسب فیصلہ نہیں ہوگا۔بہتر راستہ یہی ہے کہ آئین کے مطابق آگے بڑھا جائے اور آئین کی منشاء یہی ہے کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوں اور جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے۔ اس نکتے پر سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے اور سیاسی قوتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ بے یقینی  میں مزید اضافہ ہوگا جس سے نہ صرف معیشت مزید بدحالی کا شکار ہو گی بلکہ عام آدمی کی زندگی بھی مزید اجیرن ہو جائے گی۔

مزید :

رائے -کالم -