چودھری اندر، مخدوم باہر!

تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے رہا کر دیا گیا ان کی یہ رہائی لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ کے جج کی طرف سے واضح حکم کے بعد عمل میں آئی اور سابقہ رہائی کی طرح جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے ہوئی دوبارہ حراست میں نہیں لیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے باہر آکر میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک ماہ تک جیل میں رہے ہیں، اس عرصہ میں فواد چودھری یا کسی اور سے ان کا رابطہ نہیں ہوا۔ البتہ ان کی اولاد نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ کسی دباؤ میں نہیں آنا۔ قارئین کی یاد تازہ کرنے کے لئے عرض کر دوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج نے ان کو بیان حلفی (نیک چلنی) پر دستخط کرنے کے لئے کہا تھا انہوں نے ایسا نہ کیا اور رہا نہ ہوئے تھے۔ اب دوسری درخواست کے بعد دوسری فاضل عدالت کا حکم کسی شرط کے بغیر تھا اور انہوں نے رہائی قبول فرما لی آخر کار مخدوم جو ٹھہرے، مخدوم شاہ محمود قریشی نے باہر آنے کے بعد میڈیا سے مختصر بات کی اور بتایا کہ وہ پہلے چیئرمین سے لاہور میں ملاقات کریں گے اور پھر بات کریں گے۔ البتہ انہوں نے کارکنوں کو حوصلہ دیا کہ بُرا وقت ضرور آیا ہوا ہے لیکن یہ گزر جائے گا اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک معنی خیز جملہ بھی کہہ دیا ”انصاف کا پرچم اب میرے ہاتھ میں ہے“ یہ جملہ ایسا ہے کہ حضرات اب اس کے بھی معنی نکالنا شروع ہو گئے ہیں حالانکہ خود چیئرمین نے ان کو نامزد کیا اور اعلان کیا تھا کہ ان کے بعد شاہ محمود قریشی جماعت سنبھالیں گے۔ اگرچہ ابھی ایسا وقت تو نہیں ایٓا کہ وہ ”نااہل“ قرار دیئے گئے ہوں یا ان کو سزا والی بات پوری ہو گئی ہو البتہ 9 مئی کے سانحات کی وجہ سے وہ محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور یوں بھی ان کے خلاف بے شمار مقدمات ہیں اور وہ ضمانتوں پر وقت گزار رہے ہیں۔
جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے تو وہ ایک سیاستدان کے صاحبزادے اور بیرون ملک سے کوالیفائیڈ ہیں جبکہ اب تو خود ان کا سیاسی تجربہ دہائیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں صوبائی وزیر خزانہ کی حیثیت سے کیریر شروع کیا۔ پیپلزپارٹی میں آنے کے بعد سیاسی طور پر ان کی بہتر تربیت ہوئی اور وہ زیادہ جانے گئے موجودہ دور میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ رہے اور جب آصف علی زرداری کی طرف سے ان کا محکمہ تبدیل کیا گیا تو انہوں نے کابینہ کے دوسرے حضرات کے ساتھ حلف نہ لیا ان کی کرسی خالی چلی گئی اور پھر وقت نے دیکھا وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور یہاں بھی بتدریج اپنا مقام بنایا وہ صوبائی اسمبلی کی نشست ہار جانے کے باعث صوبائی وزیر اعلیٰ تو نہ بن سکے تاہم وفاق میں وزیر خارجہ کا عہدہ ضرور مل گیا اور وہ بہت مطمئن رہے حتی کہ جہانگیر ترین سے ان کی علاقائی مخاصمت نے بھی ان کا کچھ نہ بگاڑا اور خود جہانگیر ترین ہی مائنس ہو گئے اور شاہ محمود قریشی جماعت میں بھی اہمیت اختیار کر گئے اب تو انہوں نے ثابت قدم رہ کر اپنی حیثیت اور بھی مستحکم کر لی اور کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کو وہی سنبھالیں گے کہ عمران خان کے نا اہل ہونے کے امکانات بہت ہیں۔
شاہ محمود قریشی کو میں ابتدا سے جانتا ہوں جب وہ تعلیم مکمل کر کے آئے اور اپنے والد مرحوم مخدوم سجاد قریشی کے ساتھ سیاسی حلقوں میں متعارف ہو رہے تھے۔ میں پہلے بھی بتا چکا تاہم پھر عرض کرنے میں حرج نہیں کہ جب مخدوم سجاد قریشی کے ساتھ وہ اقبال احمد خان سے ملنے چنبہ ہاؤس آئے تو ان کو انتظار بھی کرنا پڑا اور جب اقبال احمد خان سے ملے تو روائتی سلام کے بعد صرف اتنا کہا بیٹا تعلیم مکمل کر کے آیا ہے سوچا آپ سے ملوا لوں اور یہ ملاقات خوشگوار الفاظ کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی اور پھر اسے حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ پندرہ روز کے بعد مخدوم سجاد قریشی پنجاب کے گورنر کا حلف اٹھا رہے تھے۔ مخدوم سجاد بڑے سمجھدار اور سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل تھے انہوں نے گورنر کا حلف روائت سے ہٹ کر گورنر ہاؤس کی مسجد میں اٹھایا تھا یہ تفصیل میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اب تو بات شاہ محمود قریشی کی ہو رہی ہے۔ جو جیل سے باہر آئے تو تروتازہ تھے اور سنجیدہ گفتگو کر رہے تھے قارئین حیران نہ ہوں کہ ان کی تازہ شیو بھی ہوئی اور کلف لگے کپڑے پہنے ہوئے تھے یہ ہمارے سیاسی اکابرین اور ان حضرات کو جیل میں بھی احترام اور سہولتیں حاصل ہوتی ہیں شاہ محمود قریشی کے حوالے سے بہت کچھ بتایا جا رہا ہے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس خاندان نے گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کیا اور نہ ہی یہ جھگڑالو ہیں، یہ تو شاید تحریک انصاف کا اثر ہے کہ شاہ محمود قریشی بھی کبھی پٹڑی سے اترے دکھائی دیئے حالانکہ وہ بہت صلح کن ہیں اگر ان کو جماعت چلانا پڑی تو سیاسی مفاہمت کا ماحول بن سکے گا۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کے ذکر میں اُلجھ کر اپنے چودھری پرویز الٰہی کو بھول ہی چلا تھا جو دو عدالتوں سے تین کیسوں میں سرخرو ہوئے اور ان کو تین مقدمات سے بری کر دیا تاہم ایک اور کیس میں جو اسمبلی میں بھرتیوں سے متعلق ہے
ان کا جسمانی ریمانڈ نہ دیا گیا اور انہیں جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا اور اب ہائی کورٹ نے ان کو تمام قانونی مراعات دینے کی ہدایت کی وہ سابق وزیر اعلیٰ کے منصب کی وجہ سے ہی اے کلاس کے حق دار ہیں اور ان کو مل چکی ہو گی ویسے انسداد رشوت ستانی پولیس نے بھی تو ان سے کوئی غیر مناسب سلوک نہیں کیا وہ ان کی حراست میں رہتے ہوئے عدالت میں پیش ہونے آئے تو ان کی شیو ہوئی ہوئی تھی اور صاف ستھرے کپڑے زیب تن تھے حتیٰ کہ بال بھی بنے ہوئے تھے اسی لئے شاید کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے مخدوم صاحب سے قبل برملا اعلان کیا کہ وہ ثابت قدم ہیں۔ عمران کے ساتھ مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہیں اور یہی تو وقت ہے جب ایسا کیا جانا چاہئے۔ چودھری پرویز الٰہی بھی سنجیدہ اور پرانے سیاست دان ہیں، جو دو دفعہ صوبائی وزیر اعلیٰ دو دفعہ سپیکر پنجاب اسمبلی ایک بار نائب وزیر اعظم اور پھر قائمقام قائد حزب اختلاف بھی رہ چکے ہیں اب وہ اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کر کے اس کے مرکزی صدر ہیں، وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں اور ان کی ضمانت بعد از گرفتاری کے لئے درخواست دائر ہو چکی۔
یہ صورت حال بھی دلچسپ ہے دو سنجیدہ اور تجربہ کار سیاست دان کپتان کے ساتھ کسی غیر مرئی قوت کے باعث کھڑے ہیں اگر نا اہلی ہو گئی تو یہ دو حضرات ہی ہوں گے جو جماعت کو آگے لے جائیں گے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دونوں کی موجودگی کسی اور نوعیت کے منظر کی بھی نشان دہی کر سکتی ہے۔ بہر حال چودھری پرویز الٰہی نے کھل کر فوج کی حمایت کر دی اور شاہ محمود قریشی بھی نرم تر گوشہ رکھتے ہیں دیکھئے مستقبل کیا دکھاتا ہے۔