سندھو کا جنم تبت کے پہاڑوں میں ایک چشمے”سنگھ کھاباب“ سے ہو تا ہے اور جسے تم کارگل دریا سمجھتے ہو دراصل یہ شنگو ریور ہے جو پاکستان سے بہتا ہندوستان جاتا ہے

سندھو کا جنم تبت کے پہاڑوں میں ایک چشمے”سنگھ کھاباب“ سے ہو تا ہے اور جسے تم ...
سندھو کا جنم تبت کے پہاڑوں میں ایک چشمے”سنگھ کھاباب“ سے ہو تا ہے اور جسے تم کارگل دریا سمجھتے ہو دراصل یہ شنگو ریور ہے جو پاکستان سے بہتا ہندوستان جاتا ہے

  

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:40
سنگم پر کھڑا غلام محمد ہمیں بتا رہا ہے؛”سر! آپ کے سامنے دریائے لداخ اولڈنگ کی جانب اور دریائے کارگل(مقامی لوگ شنگو کو کارگل ریور بھی کہتے ہیں) سامنے کی جانب سے بہتے آ رہے ہیں۔ مرول ٹاپ جو ان دونوں دریاؤں کا سنگم ہے وہیں سے دریائے سندھ جنم لیتا ہے۔“ اس کی بات میرے لئے حیران کن تھی۔اس نے مزید بتایا؛”جناب! کھرمنگ کے رہنے والوں کی اکثریت ایسا ہی سمجھتی ہے کہ دریائے سندھ کی شروعات یہی سنگم ہے۔“ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا مجھے داستان گو کی سرگوشی سنائی دی؛”دوست!دیکھو لو۔تمھارے کھرمنگ کے لوگ میرے بارے اور میری شروعات کے بارے کس غلط فہمی کا شکار ہیں۔ میرا شکوہ ریکارڈ کر لو۔“  میں نے غلام محمد کو بتایا؛ نہیں ایسا نہیں ہے۔تم لوگوں کا خیال سندھو کی ابتداء کے حوالے سے بالکل غلط ہے۔ سندھو کا جنم تبت کے پہاڑوں میں ایک چشمے”سنگھ کھاباب“ سے ہو تا ہے اور جسے تم کارگل دریا سمجھتے ہو دراصل یہ شنگو ریور ہے جو پاکستان سے بہتا ہندوستان جاتا ہے اور کارگل کے قصبے سے چند کلو میٹر ڈاؤن سٹریم سندھو میں مل جاتا ہے۔ یہ ہمارے سامنے سے بہہ کر آنے والا دریا کارگل نہیں بلکہ سندھو ہے۔“ اس کے لئے میری بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ اپنے بزرگوں اور علاقے کے لوگوں سے سن رکھی روایات کو اتنی آسانی اور جلدی بھول جانا قطعی ممکن نہیں اور اس پر یقین کرنا تو شاید آسان ہی نہیں ہے۔
 میں 9 ہزار فٹ کی بلند ی پر کھڑا اپنے دوست کو اس سنگم سے بہتا دیکھ رہا ہوں۔آسمان پر بادل چھانے لگے ہیں۔ سورج اور بادلوں کی آنکھ مچلولی نے پہاڑوں پر دھوپ چھاؤں کا حسین رنگ جما دیا ہے۔خنک ہوا نے دن کے اس پہر موسم خوشگوار کر رکھا ہے۔ میرے سامنے آسمان میں کھبے (پیوست)ان پہاڑوں کے درمیان پرسکون بہتے ان دو دریاؤں کا سنگم شاندار نظارہ پیش کر رہا ہے۔ ان پہاڑوں کی شان دیکھ کر مجھے قرآن کریم کی آیت یاد آ گئی ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے؛
”بے شک ہم نے پہاڑ زمین میں میخوں کی طرح گارڈ دئیے ہیں تاکہ زمین کا توازن برقرار رہے۔“
میں اس شاندار اور دلفریب نظارے میں اس قدر محو تھا کہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اپنے دوست کی آواز سنائی نہیں دی۔ اسے ذرا زور سے دوسری بار مجھے آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کرنا پڑا ہے۔ میں چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا ہوں۔”دوست!جس پہاڑ کے سائے میں تم کھڑے ہو یہ قراقرم کے پہاڑ ہیں جبکہ تمھارے سامنے میرے دوسرے کنارے ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ سر اٹھائے ہے۔ میں ان 2 عظیم پہاڑی سلسلوں کے درمیان سے بہتا کھرمنگ کی جانب رواں ہوں۔ یہ اللہ کی عنایت ہے کہ اس نے مجھے دنیا کے ان عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کے درمیان بہنے کا موقع دیا ہے۔“ میں اس کی بات پر مسکرایا اور جواب دیا؛”شاید یہی وجہ ہے کہ بچپن سے ہی مجھے تم سے محبت ہے، تمھاری دوستی پر ناز ہے۔“ میں نے پوچھا؛”عظیم سندھو! تم یہاں اتنے سکون سے کیوں بہہ رہے ہو؟ تم تو پہاڑی راستوں میں خوب شور مچاتے پتھروں سے ٹکراتے ہو۔“ اس نے جواب دیا؛”جان من! یہ شاید بابا شیخ نجفیؒ ؒکی کرامت ہے کہ ان کے احترام میں سکون سے بہتا ہوں۔ لگتا ہے کہ وہ اسی چوٹی سے مجھ پر نظر کرم کئے ہیں جس پر ان کی درگاہ ہے۔“ 
میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے سندھو کی سطح کے متوازی بلندی کو جاتے راستے پر نگاہ ا ٹکائے ہوں۔ مجھے حیران دیکھ کر سندھو بھانپ گیا اور کہنے لگا؛”میری جان! اس مقام سے سات آٹھ کلو میٹر ڈاؤن سٹریم ”ہمزی گونڈ“(قمر یگون) کی چھاؤنی اور بریگیڈ ہیڈ کواٹرز ہے۔ یہ راستہ وہیں سے شروع ہو کر دور اوپر پہاڑوں میں کارگل اور بٹالک سیکٹرز میں قائم پاکستانی فوجی چوکیوں کو سامان رسد پہنچانے کے لئے ہے۔ قدیم کھر منگ۔۔۔ کارگل روٹ بھی یہی تھا۔ تمھیں یہ بھی بتا دوں زمانہ قدیم میں مجھ پر پل تعمیر کرنا آسان نہ تھا تو قراقرم کے پہاڑی سلسلے پر رہنے والے قراقرم پر بنے راستے سے لداخ جاتے تھے جبکہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر بسنے والے ہمالیہ پر بنے راستے سے۔ یہ سفر انتہائی مشکل اور دشوار گزار تھا۔ یہ تو تم جانتے ہو لداخ اس دور کا اہم تجارتی مرکز تھا۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے ایک ڈائریکٹر جنرل بلدیات پنجاب کرنل (آر) محمد شہباز1978ء میں 2این ایل آئی کے بٹالین کمانڈر رہے اور’’شہباز پوسٹ‘ انہوں نے ہی قائم کی تھی؟“ میں نے جواب دیا؛”نہیں یہ میرے علم میں نہیں ہے لیکن میری ان سے اچھی نیاز مندی اور شناسائی تھی اور آج بھی ہے۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -