مغربی دنیا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نمائندے گہرے نسلی مسئلے کے حل میں ناکام رہے ہیں، وقت آگیا ہے کہ ہم مل کر بیٹھیں اور سوچیں

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:108
میں جب اسٹوڈیو میں داخل ہوتا تو شیاطین اور سیاہ فام پی ایچ ڈی ”پتلیاں“ آپس میں بے حد دوستانہ انداز میں ایک دوسرے کا نام پکارتے اور ہنستے نظر آتے۔ اس عظیم جھوٹ پر مجھے قے آنے لگتی حتیٰ کہ وہ میرے ساتھ بھی بے تکلفی کی اداکاری کرتے۔ حالانکہ ہم سب جانتے تھے کہ انہوں نے مجھے ذہنی طور پر نیچا دکھانے کے لیے بلایا ہے۔
وہ مجھے کافی پیش کرتے میں ”نہیں، شکریہ“ کہہ کر پوچھتا کہ مجھے کہاں بیٹھنا ہے؟ مائیکرو فون بعض اوقات سامنے میز پر رکھا ہوتا اور کبھی تار کے ذریعے گلے میں حمائل کر دیا جاتا اور مجھے آغاز ہی سے یہ دوسرا انداز پسند تھا کیونکہ اس طرح آپ کو ہر وقت مائیکرو فون سے فاصلے کی پریشانی نہیں رہتی۔
پروگرام کا میزبان عموماً میرا تعارف بے حد غیر مذہبی انداز میں کرواتا۔”آج ہمارے ساتھ شعلہ نوا، ناراض میلکم ایکس موجود ہیں جو نیویارک کے مسلمانوں کے سربراہ ہیں۔۔۔“ میں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے میزبانوں کے برعکس اپنا تعارف خود کروانے کی مشق شروع کر دی اور جونہی مجھے موقع ملتا میں میزبان کی بات کاٹ کر اپنا تعارف خود کروانا شروع کر دیتا۔
”میں جناب ایلیا محمد کا نمائندہ ہوں۔ جو اس مغربی حصہ ارض پر انتہائی تیزی سے بڑھنے والے مسلمانوں کے گروہ کے روحانی سربراہ ہیں۔ ہم جو ان کے پیروکار ہیں، یہ جانتے ہیں کہ انہیں اللہ نے ہمارے پاس بھیجا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ امریکہ میں 20 ملین سیاہ فاموں کی بدحالی الہامی پیش گوئی کی تکمیل ہے۔ ہمارا یہ بھی ایمان کہ اس وقت عزت مآب ایلیا محمد کی امریکہ میں موجودگی، نام نہاد نیگروز کو دی جانے والی تعلیم ان نام نہاد نیگروز کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف ایلیا محمد کی تنبیہہ یہ تمام الہامی پیشگوئی کا نتیجہ ہیں۔ مجھے نیویارک کے معبد نمبر 7 کا وزیر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جو قوم اسلام کا ایک حصہ ہے اور عزت مآب ایلیا محمد کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔۔۔“
میں اپنے گرد بیٹھے شیاطین اور ان کے تربیت یافتہ طوطوں کو دیکھتا جو مجھ پر، ایلیا محمد پر اور ”قوم اسلام“ پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ ”یک جہتی“ کے مارے ہوئے نیگروز یہی سوال کرتے کہ ”مسلمان یہ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ امریکی نیگروز کے مسائل کا حل یک جہتی میں ہے۔“ میں اس سوال کا جواب اس طرح دیتا ”کوئی باشعور سیاہ فام یک جہتی کی خواہش نہیں رکھتا۔ نہ کوئی باشعور سفید فام حقیقتاً یک جہتی چاہتا ہے، کوئی باشعور سیاہ فام اس بات پر یقین نہیں کرے گا کہ سفید فام اسے ”علامتی یک جہتی“ سے زیادہ کچھ دے گا۔ نہیں بالکل نہیں۔ عزب مآب ایلیا محمد نے ہمیں بتایا ہے کہ امریکی سیاہ فام کے مسائل کا حل سفید فام سے مکمل علیٰحدگی میں ہے۔“
جن لوگوں نے مجھے ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر سنا ہے وہ جانتے ہیں کہ میں بغیررکے بولتا ہوں تاآنکہ میں اپنی بات مکمل نہ کر لوں۔ لیکن ان دنوں میں اس تکنیک کو بہتر کر رہا تھا۔
”ایلیاء محمد نے ہمیں بتلایا ہے کہ چونکہ مغربی معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے اور اس میں گناہ کا دور دورہ ہے لہٰذا اللہ نے اس کا حساب لینے اور اسے تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور عذاب میں مبتلاء اس معاشرے سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ سیاہ فام اس بدعنوان معاشرے سے لاتعلق رہیں۔ ان سے الگ ہو کر اپنا علیٰحدہ خطۂ ارض حاصل کریں جہاں ہم اپنی اصلاح کر سکیں، اپنا اخلاقی معیار بلند کر سکیں اور اللہ والے بن سکیں۔ مغربی دنیا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نمائندے اس گہرے نسلی مسئلے کے حل میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے اعلیٰ قانون دان ناکام ہو چکے ہیں، سماجی ماہرین ناکام ہو چکے ہیں، معاشرتی رہنما ناکام ہو چکے ہیں۔ یک جہتی کا نعرہ لگانے والے خود ناکام ہو چکے ہیں۔ اب جب کہ یہ تمام لوگ ناکام ہو چکے ہیں تو پھر وقت آگیا ہے کہ ہم مل کر بیٹھیں اور سوچیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس پیچیدہ نسلی مسئلے کا حل سوائے اللہ کی اپنی ذات کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔