قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی کا بڑا کاروبار بوہریوں کے ہاتھوں میں آگیا،بوہری بہت اونچے درجے کے تاجرتھے سامان سے لدا پورے کا پورا بحری جہاز صرف ان ہی کیلئے آیا کرتا تھا

 قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی کا بڑا کاروبار بوہریوں کے ہاتھوں میں ...
 قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی کا بڑا کاروبار بوہریوں کے ہاتھوں میں آگیا،بوہری بہت اونچے درجے کے تاجرتھے سامان سے لدا پورے کا پورا بحری جہاز صرف ان ہی کیلئے آیا کرتا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:131
بوہری 
قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی کا بڑا کاروبار بوہریوں کے ہاتھوں میں آگیا۔وہ یہاں موجود تو اس سے پہلے بھی تھے لیکن تقسیم ہند کے بعد ایک بڑی تعداد بمبئی سے آکر پاکستان اور خصوصاً کراچی میں سکونت پذیر ہو گئی۔
بوہری زیادہ تر اونچے درجے کے کاروبار کرتے تھے۔یہ عقیدے کے لحاظ سے داؤدی بوہری کہلاتے تھے، تاہم اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے تھے۔اپناتعلق کسی نہ کسی واسطے سے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ زہرہؓ سے جوڑتے تھے۔ بوہروں کا ایک فرقہ سنیوں کا بھی تھا،لیکن زیادہ تر  لوگ شیعہ مسلک سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
یہ بہت رکھ رکھاؤ والے لوگ تھے۔ اپنی رشتے داریاں اور میل جول بھی اپنے ہی لوگوں تک محدود رکھتے۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرے اور اجلے کپڑوں میں ملبوس ہوتے۔ مرد عموماً سفید کرتا پہنتے تھے اور اس کے اوپر اتنا ہی لمبا ایک ہلکا سا اوور کوٹ ہوتا تھا۔ سر پر سفید رنگ کی ٹوپی ہوتی تھی،تاہم کسی اچھی محفل میں شرکت کے موقع پر وہ شیروانی کے ساتھ سنہری ٹوپی بھی پہنتے تھے۔ ہر بوہری مرد کی داڑھی ہوتی تھی۔بوہری خواتین کا لباس 2حصوں پر مشتمل ہوتا تھا، یعنی وہ سفید یا ہلکے رنگ کے لمبے کرتے، پائجامے اور سفید دوپٹے پہنتی تھیں جسے وہ ردا کہتی تھیں۔ ان کی بچیاں البتہ رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کیے نظر آتی تھیں۔
چونکہ بوہری دنیاکے کئی ممالک مثلاً ہندوستان کی ریاست گجرات، یمن، جنوبی افریقہ،مصر اور پاکستان میں آباد تھے اس لیے ان کے کلچر میں ان سب علاقوں سے کچھ نہ کچھ مستعار لیا ہوا نظر آتا تھا۔وہ مقامی زبانوں کے علاوہ اپنی ایک مخصوص زبان بھی بولتے تھے جس کو وہ”لسان الدعویٰ“کہتے تھے۔کاروباری معاملات میں وہ سچے اور کھرے ہونے کے علاوہ بے حداصولی لوگ تھے۔ ان کے ساتھ کاروبار کرنے والوں کو کبھی کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں ملتا تھا۔ 
کراچی میں بوہریوں کی اپنی عبادت گاہیں ہوتی تھیں جنہیں جماعت خانہ کہتے تھے۔ ہر جماعت خانہ میں مسجد کے علاوہ سماجی سرگرمیوں کے لیے وسیع وعریض ہال ہوتا تھا جہاں شادی بیاہ کی رسموں اور تعزیتی اجتماع کے علاوہ اور بھی مجلسیں ہوتی تھیں۔ ان میں برادری کے سرکردہ لوگ مل کر بیٹھتے اور اپنی جماعت کے حوالے سے سماجی اور اجتماعی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے اور مشکلات کا حل نکالتے تھے۔ 
شاذو نادر ہی ان کو کبھی لڑائی جھگڑے یا سنگین جرائم میں مبتلا دیکھا گیا تھا۔ اخلاق بہت اعلیٰ معیار کا تھا اور گفتگو بھی بڑے سلیقے سے کرتے تھے۔اس کے علاوہ یہ لوگ خیراتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے تھے۔ ان کی پہلی ترجیح تو اپنی ہی جماعت کے مالی طور پر کمزور اور حق دار لوگ ہوتے تھے، تاہم وہ باہر کے خیراتی اداروں کے ساتھ بھی جی بھرکے تعاون کرتے تھے۔ جس طرح وہ چپ چاپ ضرورت مندوں کی مدد کردیتے تھے وہ بھی ایک قابل ستائش اور قابل تقلید عمل تھا۔مسلسل خیرات اور باہمی امداد کی وجہ سے ان کی جماعت کے بہت کم لوگ ایسے تھے جو سطح غربت کے نیچے زندگی گزارتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی ایسی نیکیوں کی تشہیر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی، بس دینے والے یا لینے والے کو علم ہوتا تھا۔
بوہری بہت اونچے درجے کے تاجرتھے جن کا کاروبارکروڑوں میں جا پہنچتا تھا۔ ایلفنسٹن سٹریٹ، وکٹوریہ روڈ پر ملبوسات اور زیورات وغیرہ کے علاوہ وہ وسیع پیمانے پر امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ ان میں سے بعض تو مالی طور پر اتنے مضبوط لوگ تھے کہ سامان سے لدا ہوا پورے کا پورا بحری جہاز صرف ان ہی کے لیے آیا کرتا تھا۔ 
وہ انتہائی صاف ستھرے ماحول اور شان دار گھروں میں رہتے تھے۔ ان کی کوشش اور خواہش ہوتی تھی کہ بوہری برادری کے زیادہ تر افراد ایک ہی علاقے میں سکونت اختیار کریں۔ اِس لیے ان کی اپنی بڑی بڑی رہائشی کالونیاں بھی ہوتی تھیں جہاں گھروں کے علاوہ ان کے جماعت خانے، فلاحی مرکز،ہسپتال اور مارکیٹیں وغیرہ بھی ہوتیں۔
ان کی کسی سے بھی کاروباری رقابت نہیں تھی۔وہ انتہائی دھیمے اور منکسرالمزاج لوگ تھے۔ غیر قومیتوں سے اپنی گفتگو کو کاروبار اور مطلب کی بات تک ہی محدود رکھتے تھے۔ مذہب کے معاملے میں بھی وہ کسی اور کے عقائد میں نہ تو دخل دیتے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بحث و مباحثہ کرتے تھے۔
بوہری برادری کراچی کے عمومی ماحول میں کم ہی نمایاں ہوتی تھی۔ ان میں بھی یقینا بڑے بڑے لوگ تھے جنہوں نے کاروبار کے علاوہ معاشرتی، سماجی اور خیراتی کاموں میں بڑاحصہ ڈالا ہو گا، لیکن وہ چونکہ ایسی باتوں کی تشہیر نہیں کرتے تھے اس لیے کم ہی افراد کو ان عظیم لوگوں کے ناموں اور معاشرے کے لیے کیے گئے ان کے کاموں کا علم ہو گا۔
 (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -