اقبالؒ نے ایسے فلسفیانہ اور عالمانہ الفاظ کو رواج دیا ہے جن سے لب و لہجہ میں رعب و جلال پیدا ہو جاتا ہے

مصنف: جمیل اطہر قاضی
قسط:42
فارسی شعراء کے اثرات کے ساتھ ہی ساتھ اگر اقبال کی زبان اور الفاظ کا بھی جائزہ لیں تو چند خصوصیات یہ سامنے آتی ہیں کہ اقبال نے اپنی اُردو شاعری میں جو جا بجا فارسی تراکیب استعمال کی ہیں ان سے بھی ان کے لب و لہجہ کے وقار ہیبت اور رعب و جلال میں اضافہ ہوتا ہے۔ علامہ نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بعض ایسے حکیمانہ اور عالمانہ الفاظ و اصطلاحات کو اکثر استعمال کیا ہے جس کا صوتی آہنگ بہت پر شکوہ اور بارعب ہوتا ہے۔
ان کے ہاں اکثر ثقیل اور گراس الفاظ بروئے کار آتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال کو بارعب اور پُر ہیبت الفاظ مرغوب ہوں۔ یہ وہ ذہنی اور نفسیاتی میلان ہے جس کی طرف قبل ازیں اشارہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ان اشعار کے الفاظ کو دیکھئے۔
دلِ گیتی انا المسموم انا المسموم فریادش
خرد نالاں کہ ماعندی بتریاق ولا راقی
چہ ملائی، چہ درویشی، چہ سلطانی، چہ دربانی
فروغِ کار می جوید بسالوسی و زراقی
ببازارے کہ چشم صیرنی شوراست و کم نوراست
نگینم خوار تر گردوچوں افزاید بہ براقی
اسی طرح ان اشعار میں بھی بعض الفاظ قابل غور ہیں۔
میری نوائے شوق سے شورِ حریم ذات میں
غُلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تّخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تّجلیات میں
اقبالؒ کے لب و لہجے کے مطالعے میں ان کی ذہنی مرغوبات اور لفظیات کا مطالعہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ یہ بات تو سرسری مطالعہ سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ اقبال نے اکثر ایسی بحور کا انتخاب کیا ہے جو زیادہ پُر خروش ہیں جن کا صوتی آہنگ نہایت تیز رفتار ہوتا ہے اور جن کی آواز سے ایک ہیبت زا کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی غزلیات کے مطالعہ سے اطمینان و سکون حاصل نہیں ہوتا بلکہ ایک طرح کا ہیجان اور جارحانہ ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک طرح کی پیش قدمی اور ٹوٹ پڑنے کی خواہش نمایاں ہوتی ہے جو شاعر کے جوشِ حیات کی آئینہ دار ہے۔ اسی طرح اقبالؒ نے ایسے فلسفیانہ اور عالمانہ الفاظ و قوافی کو بھی رواج دیا ہے جن کی آواز سے لب و لہجہ میں رعب و جلال پیدا ہو جاتا ہے چونکہ یہ الفاظ و قوانی ان سے پہلے شعراء کے ہاں استعمال نہیں ہوئے تھے یا بہت کم استعمال ہوئے تھے۔ اس لئے عام نہ ہوسکے۔ مگر علامہ اقبالؒ نے ان کو اسی طرح استعمال کیا کہ ان کی غرابت جاتی رہی۔ ان اشعار و قوانی کو دیکھئے اور غور کیجئے کہ ان سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ کس قدر زور دار اور مردانہ جوش کی حامل ہے۔
اے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پایندہ تیری ذات
ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالقِ اعصار و نگارندۂ آنات
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
اسی طرح نظریات، آلات، نباتات اور بخارات جیسے غیر شاعرانہ قوانی کو انہوں نے اپنی شاعرانہ فن کاری سے ایک طرح کا ادبی رنگ دے دیا ہے۔ یہی ان کا کمال ہے۔ اسی فن کا راز کمال کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے بہت سے ایسے قوانی کو رواج دیا ہے جو ان سے قبل شعراء نے بہت کم استعمال کئے تھے مثلاً پاژند، ہنر مند، دماوندوید ِ بیضا۔ سینا، طاہا۔ خلیق، دقیق، عتیق، زندیق غلاف۔ اعراف، کشاف وغیرہ الفاظ جو عالمانہ تو زیادہ ہیں مگر شاعرانہ کم۔ لیکن اقبال کے دقیق خیالات اور حکیمانہ افکار کے خارجی ابلاغ کے لئے روزمرہ کے آسان اور سہل الفاظ کافی تھے ہی نہیں۔ اس لئے لازماً انہیں ایسے ہی الفاظ کو اپنے خیالات کے اظہار کاذریعہ بنانا پڑا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)