شعبہ صحت”نجی“ کرپشن میں ملوث!
کرپشن نے ملکی خزانے ہی کو نہیں، پورے معاشرے کو تحس نحس کر کے رکھ دیا ہے، بڑے پیمانے اور اوپر کے درجے پر ہونے والی کرپشن کا اتنا شور ہے کہ نچلی سطح پر جاری کرپشن اور بددیانتی کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا۔ حکومتی سطح پر حزب اختلاف بھی ہوتی ہے جو حکمران جماعت کے خلاف کوئی موقع اور کوئی واقع خالی نہیں جانے دیتی اور پھر موجودہ دور میں تو عدالت عظمیٰ نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، چنانچہ بڑے پیمانے اور اونچے درجے پر ہونے والی مبینہ کرپشن زبان زد عام ہے۔ اس کے پس منظر میں باقی ہر قسم کی کرپشن چھپ کر رہ گئی ہے، حالانکہ پاکستان کا پورا معاشرہ ہی اس دلدل میں پھنس چکا ہوا ہے، تھانے، کچہری سے پٹوار خانے تک کے قصے عام ہیں اور پھر مختلف سرکاری محکموں میں کام کروانے کے لئے پہیئے لگانے اور قائداعظم ؒ کا جلوہ دکھانے کا سلسلہ اتنا عام ہے کہ اسے اب رشوت، خورد برد اور بددیانتی کی بجائے حق قرار دیا جاتا ہے۔ تعمیراتی اور سپلائی کے شعبوں میں درجہ بدرجہ کمیشن کا رواج کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، لیکن آج تک اس کا سدباب نہیں ہو سکا۔
اسی طرح مہنگائی کا جو عالم ہے اس پر سرکاری یا حکومتی پالیسیوں کے اثرات تو یقینا ہوتے ہیں، لیکن مقامی سطح پر احتساب کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام پر مزید بوجھ نچلی سطح والے ڈال دیتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر ہونے کے دن قریب آتے ہی پٹرول پمپ والے پٹرول کی فروخت کو آنے والی قیمتوں سے منسلک کر لیتے ہیں اور اگر قیمتوں میں اضافے کا امکان ہو تو خریداروں کو پٹرولیم دینا بند کر دیا جاتا ہے، تاکہ جو سٹاک موجود ہو اس پر بھی منافع حاصل کیا جا سکے اور اگر نرخ کم کر دیئے جائیں تو ایک دو روز پرانی قیمتوں پر فروخت لازمی ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھاﺅ کی پڑتال کرنے والے سوئے رہتے ہیں۔ایک بڑی مثال نجی ٹرانسپورٹ کی ہے۔ قواعد و قانون کے مطابق کرایوں کا تعین ٹرانسپورٹ اتھارٹی کرتی ہے اس کے طریق کار کے مطابق عوام سے اعتراضات لئے جاتے اور پھر قیمتوں کے تعین کے لئے متعلقہ حلقوں کے نمائندوں سے مشاورت بھی لازمی ہے اور پھر باقاعدہ اتھارٹی کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں کرایوں کا تعین کیا جاتا ہے، لیکن یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے ٹرانسپورٹ مالکان اپنی مرضی سے کرائے مقرر کر لیتے اور وصول بھی کرتے ہیں ان کو کوئی نہیں پوچھتا۔
یہ تو توجہ دلانے والی بات ہے سبھی جانتے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ حکومتوں کی طرف سے اقدامات تو نہیں کئے جاتے صرف تسلی دی جاتی ہے اور تاجروں کو من مانی کی کھلی چھٹی ہے۔ یہ عمومی بات اور مسائل ہیں لیکن یہاں تو لالچ یا مفاد کے تحت لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیلنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک مثال تو اب خسرے کی وباءکے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ سے واضح ہوئی ہے، جس کے تحت اول تو خسرے کی ویکسین پلائی ہی نہیں گئی اور ذمہ دار کارکن دیہات تک نہیں پہنچے۔ بات یہی نہیں، بلکہ حقیقت اس سے بھی خوفناک ہے۔ ایک معاصر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ بچوں کو جعلی ویکسین بھی پلائی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے ردعمل ہوا اور بچوں کی اموات ہوئیں۔ متعلقہ محکموں کے بددیانت حضرات نے معصوم جانوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
یہ تو سرکاری سطح کی بات ہے ہم نجی شعبے کی بھی بات کرتے ہیں۔ صحت کے معاملے میں سرکاری ہسپتالوں کے حوالے سے شکایت عام ہے کہ ان میں علاج کے لئے جانے والے مریضوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ چہ جائیکہ ان کا مکمل اور مناسب علاج ہو، ہسپتالوں میں پوری توجہ نہیں دی جاتی اس کے باوجود ان میں مریضوں کی بھرمار ہوتی ہے کہ نجی طور پر علاج بہت مہنگا ہے۔
بات دراصل ایک بڑے مسئلے کے بارے میں تھی جس کے لئے یہ تمہید طولانی ہو گئی ہے ہم کوئی نام لئے بغیر یہ بتا دیں کہ نجی شعبہ میں کام کرنے والے ہسپتال بھی مال بنانے کا کام ہی کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی لیبارٹریوں پر تو کسی کو اعتماد نہیں، لیکن نجی ہسپتالوں کی لیبارٹریاں تو مریضوں کی جانوں کے در پے ہیں۔ حال ہی میں اس کا تلخ تجربہ ہوا ہے۔ ایک بڑے نجی ہسپتال میں معائنہ کرایا، متعلقہ ڈاکٹر نے چیسٹ (پھیپھڑوں) کا سادہ سی ٹی سکین کرانے کا مشورہ دیا، اس متعلقہ ہسپتال سے بھاری فیس دے کر سی ٹی سکین کرایا گیا، سکیننگ کی جو فلم بنی اس کے مطابق کوئی مرض نہیں تھا، لیکن بعد میں اس سکیننگ کے ساتھ جو رائے دی اور نتیجہ اخذ کیا گیا وہ بہت ہی خطرناک تھا۔ اس نتیجے کے مطابق مریض کو انفیکشن تھی اور مزید ٹیسٹ کرانے کی تجویز دی گئی تھی۔ جب یہ ٹیسٹ ڈاکٹر کے پاس پہنچا تو انہوں نے رپورٹ پڑھنے کے ساتھ ساتھ سکیننگ کی فلم بھی دیکھی اور لیبارٹری انچارج کے مشورے کو رد کر دیا۔ ڈاکٹر نے مریض کے لئے کوئی دوا تجویز نہ کی اور اسے تندرست قرار دے دیا ، ساتھ ہی ان کے ریمارکس تھے کہ لیبارٹری والے نے غلط رپورٹ لکھی ہے اس میں انفیکشن بتائی گئی تھی۔ صرف اس پر کیا موقوف ایک اور کیس ایسا بھی ملا جس کے مطابق اس کی چھاتی کے ایکسرے کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ مریض کا دل بڑھ چکا اور مزید بڑھ رہا ہے۔ مریض کی ایسی تیسی ہو گئی اور وہ ڈاکٹروں کے چکر میں پڑ گیا۔ ایک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا ڈاکٹر بدلا۔ متعدد نئے ٹیسٹ ہوئے، جس کے بعد جا کر اسے تندرست قرار دے دیا گیا، بتایا گیا کہ یہ سلسلہ دراز ہے۔ نجی ہسپتالوں کی لیبارٹری والے محض اس لئے غلط رپورٹیں بناتے ہیں کہ ان سے مزید ٹیسٹ کرائے جا سکیں اور یوں کاروبار چلتا رہے، لیکن ایسا کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ان کی رپورٹ کے بعد مریض پر جو گزرتی ہے وہ حقیقی طور پر بیمار کر دیتی ہے اور ایسا تسلسل سے ہو رہا ہے تاکہ آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے۔ یوںشعبہ صحت میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں میں معقول علاج نہیں ہو پاتا اور اخراجات الگ ہوتے ہیں۔یہ نجی شعبہ بھی جو صحت سے متعلق ہونے کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ کرپشن کا شاہکار بن چکا ہے۔ متعلقہ محکمے کوئی پڑتال بھی نہیں کرتے اور یوں یہ کاروبار جاری ہے۔ اوپر کی سطح والی بڑی کرپشن سب کے سامنے آ رہی ہے اور اِدھر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ ٭