شاعری اور موسیقی کا زوال

شاعری اور موسیقی کا زوال
 شاعری اور موسیقی کا زوال
کیپشن: z b

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


باہر کا موسم تو مصنوعی ہوتا ہے، انسان کے اندر کا موسم اصل موسم ہوتا ہے۔ اگر دل میں خوشی کے پھول کھلے ہوں تو خزاں رسیدہ ٹنڈ منڈ شجر بھی عجیب خوبصورتی لئے ہوتے ہیں اور اگر اسنان کے من میں خزاں کی اداسی چھائی ہو تو پھولوں سے لدے ہرے بھرے درخت بھی اچھے نہیں لگتے۔ سعد اللہ کا یہ شعر ا¿اکثر ایسے مواقع پر یاد آجاتا ہے۔
رنگ نے سارے اکھاں دے
پُھل تے کسے وی رنگ دے نئیں
بعض اشعار ایسے خوبصورت ہوتے ہیں کہ انسان کی ماہ وسال کی کہانی دو لائنوں میں بیان کردیتے ہیں، ناصر کاظمی نے دل کی اداسی کو جس سادہ و منفرد انداز میں بیان کیا وہ لاجواب ہے۔ ناصر کاظمی کا شعر پڑھ کر اکثر محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ہمارے ہی دلوں کی داستان لکھ دی ، دو لائنوں میں ایک طویل داستانِ دل :
 دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
بہار کا موسم شروع ہوتے ہی اکثر یہ خیال آتا ہے اور دل کواداس کر جاتا ہے کہ درختوں پر پھر پتے اور پھول آ رہے ہیں اور چند ماہ بعد یہ ساتھ چھوڑ جائیں گے، یہ شجر، ان کی شاخیں اور ان پر کھلنے والے پھول اپنے اندر کتنی بڑی سچائی لئے ہوتے ہیں۔ عروج وزوال ، زندگی و موت اور بقاو فنا کی حقیقت بیان کررہے ہیں۔ ایک ایک پتے، ایک ایک پھول کی اپنی الگ داستان ہے:
مَیں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتا گِرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
دل کی اداسی کو ختم کرنے کے لئے مَیں نے سوچا کہ یوٹیوب پر کوئی نئی غزل یا ٹھمری سنتے ہیں۔ یوٹیوب کے حوالے سے اکثر خیال آتا ہے کہ ہم لوگ بھی عجیب ہیں اور ہماری سرکار کے تو کیا ہی کہنے ، جس نے یوٹیوب پر پابندی لگا رکھی ہے اور شائدہی کوئی پاکستانی شہری ایسا ہو جو ہاٹ سپاٹ شیلڈ(Hotspot Shield)انسٹال کرکے اپنے کمپیوٹر پر یوٹیوب نہ چلا رہا ہو، پھر اس پرپابندی کاحکومت کو فائدہ؟ جب ہر کوئی پابندی کے باوجود یوٹیوب استعمال کر رہا ہے تو اس پر سرکار کو بھی پابندی ختم کردینی چاہیے .... بہرحال ہم نے یوٹیوب پر غزل و نغمہ کی تلاش شروع کردی۔ ہمارا خیال تھا کہ پرانے کلام کی بجائے نیا کلام سنتے ہیں۔ فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، پروین شاکر، صابر ظفر، بہزاد لکھنو ی سمیت کتنا دل کو چھولینے والا کلام ہمارے اردو ادب کا سرمایہ ہے اور اس پر مہدی حسن، منی بیگم، غلام علی، استاد امانت علی، نصرت فتح علی خان اور ٹینا ثانی یسے غزل کے گائیک کہ ان عظیم شعرا¿ کا کلام، سُر اور تال کے ان استادوں کی زبان سے سن کر روح تازہ ہوجاتی۔
آج بھی جب کبھی تنہا بیٹھے ہوں تو ان لوگوں کا کلام سننے کو دل تڑپنے لگتا ہے، چند غزلیں تو دل میں اتر چکیں ....”اے جذبہ¿ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے“۔بہزاد لکھنوی کی اس غزل کونیرہ نورنے گا کر کمال کردیا اور ابن ِ انشاءکی” انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو“۔ کو تو استاد امانت علی خان نے امر کر دیا۔ شان الحق حقی کی غزل.... ” تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے“ ۔کو ناہید اختر نے گا کر لازوال بنا دیا۔ مہدی حسن نے پروین شاکر کی ”کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی“ ۔ اور غلام علی نے حسرت موہانی کی غزل”چپکے چپکے رات دن آنسو بہانہ یاد ہے“.... استاد نصرت فتح علی خاں نے ناصر کاظمی کی ”غم ہے یا خوشی ہے تو، میری زندگی ہے تو“ گا کر دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔ کیسا من کی تاروں کو چھیڑنے والا کلام ہمارے شاعر لکھ گئے اور گلو کاروں نے اپنی خوبصورت آواز میں گاکر اسے دوام بخشا۔ میرے ذہن میں اس وقت نئے شعرا ¿کا ایسا ہی کلام سننے کی آرزو جاگی تھی اور ماضی کے گلوکاروں جیسی خوبصورت آواز سننے کے لئے میں رات کے پہلے پہر سے یوٹیوب کو کھنگال رہا تھا۔مَیں ڈھونڈ رہا تھا کہ مجھے نئے شعرا¿ اور گلوکاروں میں سے کوئی تو اس پائے کی غزل مل جائے ،جیسی ظہور احمد ظہور”دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں“ لکھ گئے یا فیض احمد فیض ”دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے“ اور داغ دہلوی کی یہ لازوال غزل” تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا؟

ایسی ہی بے مثال احمد فراز کی غزلیں”رنجش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لئے آ“ یا ” سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں“ یا پھر حسن رضوی کو” کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا“ جیسا کلام لکھ گئے۔ عبیداللہ علیم” کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں“ ۔اور ابنِ انشائ”کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا“۔ حفیظ ہوشیارپوری کی ”محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے“ اور میرے پسندیدہ سلیم کوثر”مَیں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے“۔ کسے کسے یاد کریں اور آہ بھریں، اسلم انصاری بھی یاد ااگئے، جنہوں نے” مَیں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں“ اسی طرح صابر ظفر”دریچہ بے صدا کوئی نہیں“۔ ان سب کے ساتھ اظہر نفیس کی غزل” وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال سنائیں کیا“ ۔مومن خان مومن نے” وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“ ۔اسی طرح ادا جعفری کی غزل ” ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرانام ہی آئے“۔ فاروق روکڑی کا کلام ”ہم تم ہوں گے بادل ہوگا“۔ ایسے ہی اور کتنے یاد آرہے ہیں ، کیا کیا کمال کر گئے۔
رات کے پہلے پہر میں اس تلاش میں یوٹیوب پر تھا کہ مَیں ماضی کے ان عظیم شعرا¿ کے کلام کی بجائے اپنے عہد کے نئے شعرا¿ کا کلام سن کر روح، تازہ کرسکوں۔ فجر کی اذان ہوچکی ،یقین جانئے مجھے پچھلے دو عشروں سے ایسا کوئی شاعر لاکھ ڈھونڈنے سے نہیں ملا کہ اس کی غزل کسی گلوکار نے گائی ہو، اور جو دل کو چھولے۔ پچھلے دو عشروں سے آخری غزل جودلوں کے تار چھیڑتی ہے وہ بھی ناصر کاظمی کی” نئے کپڑے بدل کر جاﺅں کہاں اور بال بناﺅں کس کے لئے“ ہے، جسے خلیل حیدر نے اپنی خوبصورت آواز میں گایا ہے۔ اس کے بعدکوئی کلام، نہ آواز۔ میں ساری رات یوٹیوب پر خوار ہوا ہوں، لیکن مجھے پچھلے دو عشروں کی کوئی نئی غزل، کوئی سریلی آواز نہیں ملی، ایسا بدترین زوال، اتنا بانجھ پن، اس قدر قحط کہ کوئی ایک غزل بھی اس معیار کی نہیں۔ جسے ہمارے مقبول و سریلے گلو کاروں نے گا کر امر کردیا ہو، جو روح کو تازہ کردے ۔ میرا خیال تھا کہ مَیں رات کا کچھ حصہ موسیقی میں صرف کروں گا اور پھر سو جاﺅں گا، مگر میری اداسی اب شدید ڈیپریشن میں بدلنے لگی ہے کہ پچھلے دو عشروں میں ہمارے ہاں کوئی ایک غزل بھی اس معیار کی نہیں لکھی گئی اور نہ ہی گائی گئی ۔ مَیں نے بہت سے شاعر اور گائیک دوستوں سے پوچھا ، مگر کوئی ایک غزل بھی نہ مل سکی ،جسے کسی گلوکار نے گا کر امر کردیا ہو۔کیا ہم لوگ اس قدر بانجھ ہوچکے ، شاعری و موسیقی کا ایسا بدترین زوال ہے۔
 افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ شعرو ادب کے دیوتا بن گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کا حلقہ احباب بنا کر انہیں بطور شاعر متعارف کرا دیا ہے کہ جن کا کلام کوئی گلوکار گانا پسند ہی نہیں کرتا اور جو اصل شاعر ہیں ان کا کلام عوام تک پہنچ رہا ہے، نہ سریلے گلوکار ان کی تلاش کرتے ہیں،سرمایا دارانہ نظام کا مکروہ چکر ہے کہ قصیدے، ہجو اور چوتھے پانچویں درجے کی گھسی پٹی شاعری کو اصل شاعری قرار دیا جارہاہے۔ شاعری کا زوال افسوسناک ہے، لمحہ فکریہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اقتصادی ومعاشی زوال پر قابو پاکر اسے دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے، لیکن شاعری و موسیقی کا زوال اس قوم کے اخلاقی ،فکری ،شعوری اور روحانی زوال کی علامت ہے اور ہم اس وقت اخلاقی ، فکری، شعوری اور روحانی زوال کا شکار ہیں ، اسی وجہ سے تمام معاشرتی برائیوں میں ہمارے لوگ دھنستے جارہے ہیں، جو ہماری قومی تباہی کی علامت ہے۔ ہمارے اندر سے خوشبو، چاشنی، سکون اور تازگی مر چکی، روح کو تازہ کرنے کے لئے ہمارے ہاں کچھ تخلیق نہیں ہورہا۔ ہماری روحیں باسی ہوکر تعفن پھیلانے لگی ہیں۔ ہم شاعری و موسیقی کے بدترین زوال کے عہد میں جی رہے ہیں۔ میرے عہد کے لوگ کس قدر مظلوم اور بد نصیب ہیں جو شاعری وموسیقی جیسی روح تازہ کرنے والی بہترین دوا سے بھی محروم ہوچکے اور بیمار روحوں کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں۔  ٭

مزید :

کالم -