ماں نے دو پھول مسل دیئے.... پس منظر میں جا کر مذموم دھندہ ختم کرائیں!
چند روز کے وقفے سے جوہر ٹاﺅن کے علاقے میں یہ دوسرا اندوہناک واقعہ ہے، دونوں ہی سانحات دلدوز اور افسوسناک ہیں، لیکن ایک ماں کے ہاتھوں دو معصوم پھولوں کو مسل دینے کی واردات مشرقی روایات کا تو حصہ نہیں۔ یہاں بہت ہی سنگدل ماں کے ہاتھوں بھی اتنے کمسن بچوں کا قتل کبھی نہیں ہوا اور اسی وجہ سے لوگ توبہ توبہ کر رہے ہیں۔ یہاں یہ تو ہوتا ہے کہ کوئی ماں اپنی گندگی کوڑے کے ڈھیر پر پھینک جاتی ہے، کوئی ماں بچوں کو ایدھی سنٹر چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور کوئی بچوں کو فروخت کے لئے پیش کر دیتی ہے، ایسے تمام واقعات اسی معاشرے میں ہو رہے ہیں، گناہ چھپانے کے لئے قتل تو سنے تھے لیکن اس طرح کسی ماں نے اپنے بچوں کی جا ن لی ہو، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ماں کی ممتا تو کہانیوں میں موجود ہے اور پھر ہم تو ماں کو اس طرح یاد کرتے ہیں کہ گاڑیوں پر لکھوا لیتے ہیں،”یہ میری ماں کی دُعاﺅں کا ثمر ہے“ لیکن یہاں ماں نے مثالی جوڑی (بیٹا+بیٹی) کو خود ہی موت کی نیند سلا دیا ہے۔
ذرا ٹھہریئے مزید بات کرنے سے قبل بعض حضرات کی مغربی معاشرے سے موازنہ کی بات کا جائزہ لیں۔ مغربی معاشرے میں والد یا والدہ کے ہاتھوں اولاد کو قتل کے واقعات ہوتے ہوں گے، لیکن رپورٹ کم ہی ہوئے ہیں، لیکن ایک بات پر غور کیجئے اگر ایسا ہی اندوہناک سانحہ مغرب کے کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو کیا ردعمل ہوتا، جی! قارئین یہ غور کرنے والی بات ہے اگر ایسا مغرب میں ہوتا تو تہلکہ مچ جاتا، پوری سرکاری مشینری حرکت میں آ جاتی، ماہرین نفسیات بلائے جاتے اور ایسی قاتل خاتون کی پوری نفسیاتی کیفیت کا جائزہ لیا جاتا اور پھر قتل کی ایسی دوہری واردات کے محرکات تک پہنچا جاتا۔
یہاں کیا ہوا، وقوعہ ہوا، پولیس نے روایتی کارروائی کی، عوام تک خبر پہنچی، کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ استغفار کا ورد کیا گیا۔ ہمارے الیکٹرونک میڈیا والوں نے معصوم مقتول بھائی اور بہن کی تصاویر اور نعشیں دکھا دکھا کر گھروں میں بیٹھے لوگوں کو بھی رُلا دیا، کمزور دل حضرات نے تو ٹیلی ویژن بند کر دیئے۔ ہمارے بھائی بند جائے وقوعہ پر جا کر قاتل ماں کو دیکھنے کی کوشش کرتے رہے تو اگلے روز کچہری میں بھی ہجوم ہو گیا۔
ماں اور ماں کی ممتا کے حوالے سے جو بھی کہئے اور جو بھی سوچئے یہ سچ ہے، لیکن غور کرنا ضروری ہے کہ قاتلہ نے یہ قتل کیوں کئے؟ اس واردات کی وجوہ اور محرکات کا گہرائی تک جائزہ لینا ضروری ہے، ہم لکھنے والے جتنے بھی مفروضے قائم کریں، جو بھی کہیں وہ حقائق تو نہیں ہوں گے، حقائق تو تحقیق ہی سے سامنے آ سکتے ہیں اور یہ بہت بڑا سوال ہے کہ کیا ایسی پیچیدہ تفتیش کے لئے ہماری پولیس کی تربیت ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ مقدمہ بھی سیدھے سادے انداز میں لیا جا رہا ہے، قاتلہ کے دیور کی رپورٹ پر پرچہ کاٹا گیا اور بسمہ کے سسرال والے الگ الزام تراشی کر رہے ہیں۔ پولیس کا اپنا انداز ہے اور روایتی ہے۔ ابھی تک کسی ماہر نفسیات کی خدمات حاصل نہیں کی گئیں۔
جہاں تک سسرالی گھر اور گھر والوں کی شہرت کا تعلق ہے تو اس بارے میں بھی میڈیا ہی نے ہمت اور تحقیق کی اور یہ معلوم کیا کہ اس گھر کی پہلے ہی شہرت خراب تھی، یہاں اجنبیوں کا آنا جانا تھا، وردی پوش بھی آتے جاتے رہے ہیں اور جھگڑوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ ایک معاصر نے تو بسمہ کا بیان ایک اور انداز میں حاصل کیا اور اس کی تائید میں سنی اور اُس کے خاندان کے بارے میں بھی بعض معلومات شائع کی ہیں۔ اُن کے مطابق قاتلہ کا کہنا ہے کہ اس خاندان کا پیشہ جسم فروشی ہے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گھر بھی اس مقصد کے لئے استعمال ہوا ہو گا۔ یوں بھی الزام یہ لگایا گیا ہے کہ سنی (قاتلہ کا شوہر) اسے جسم فروشی پر مجبور کرتا اور ایسے ہی ایک طائفہ کے ساتھ دبئی لے جانا چاہتا تھا۔ اس الزام کے ساتھ ساتھ بسمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنی اس کے کردار اور بچوں کی اصلیت پر شبہ کرتا تھا۔
یہ سب کچھ چھپ بھی گیا، پولیس نے تاحال ملزمہ کے اقبالی بیان پر انحصار کیا، اس کے خاوند سنی کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی۔ کوٹھی میں کھڑی اس کار نے بھی توجہ مبذول نہیں کرائی، جس پر ایم این اے کی پلیٹ لگی ہوئی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پولیس کا یہ فرض نہیں کہ وہ نہ صرف قاتل ماں کا نفسیاتی تجزیہ کرائے، بلکہ اُس کا اور اُس کے شوہر کے خاندان کا پورا پس منظر بھی معلوم کرے اور یوں پس پردہ جو بھی جرائم ہیں اُن کو سامنے لے کر آئے تاکہ جہاں ماں ایک ستم گر قاتل کی شکل میں سامنے آئی، وہاں تمام محرکات کا بھی علم ہو۔ یہ یقین کی بات ہے کہ اس سانحہ سے بھی کوئی متاثر نہیں ہو گا اور چند روز بعد لوگ بھول جائیں گے جیسے جوہر ٹاﺅن میں ایک ہی وقت میں قتل ہونے والے آٹھ افراد کے افسوسناک وقوعہ کو بھول چکے اور پولیس نے وہ باب بند بھی کر دیا ہے۔
معاصر کی خبر نے چونکا دیا ہے اور ایک بار پھر یہ حقیقت سامنے آئی کہ شہر کے ہر علاقے میں یہ مذموم کاروبار پھیل گیا اب جسم فروشی آرٹ اور شرفاءکی شکل میں ہوتی ہے اور یہ مال برآمدی بھی ہے جس سے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ جوہر ٹاﺅن اور اس جیسی دوسری نئی آبادیوں میں کتنے قحبہ خانے چل رہے ہیںوہ عام لوگوں کی نظر میں ہیں، تو علاقہ پولیس سے کیسے مخفی رہ سکتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ سب علاقے میں وردی والوں کی منشاءہی سے ممکن ہو سکتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے، اس لئے اگر دو معصوم بچوں کی جان گئی۔ ماں نے قتل کر کے جرم کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی تو کیا ہوا، کیس تو سیدھا سادا ہے۔ بسمہ نے قتل ہی نہیں کئے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے، وہ قاتلہ ٹھہری، اُس کا شوہر سنی سویا رہ گیا (بقول خود) تو اس پر غفلت کے سوا اور کیا دفعہ لگ سکتی ہے۔ اب بسمہ جو بھی کہتی رہے۔ یہ قتل کوئی معمہ یا اسرار نہیں رہا، صاف اور سیدھا ہے، جو بسمہ کو پھانسی کے پھندے تک لے جائے گا، لیکن سنی کے ساتھ کیا سلوک ہو گا وہ یہ کہ کچھ عرصہ پریشانی کے بعد پھر سے معاشرے میں موجود ہو گا۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ اس واردات کے اصل محرکات اور تمام پس منظر کا پتہ چلا کر اس مذموم دھندے کا بھی تو سراغ لگا کر قلع قمع کیا جائے، جوایسے کئی معصوم دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کرا دیتا ہے۔ معاشرے کو اس گناہ سے تو پاک کرنے کی سعی کریں۔ زیادہ وسیع پیمانے پر نہیں کرنا چاہتے یا ہمت نہیں ہے تو کم از کم اس واردات سے متعلق لوگوں کے جرائم کا تو پتہ کر کے قلع قمع کر دیں۔ ٭