آپ کیا پوچھ رہے ہیں ؟
جناب وزیراعظم ! آپ نے آٹو شو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بہت عجیب سوال کیا ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ پہلے سکیورٹی ٹھیک کریں یا انرجی کابحران ۔میرا جواب یہ ہے کہ جناب وزیراعظم آپ کو یہ دو ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سارے بحران بھی حل کرنا ہیں اور ایک ساتھ حل کرناہیں۔ مجھے یہ سوال اس لئے عجیب لگا کہ حکومت نے ریاست کامکمل انتظام چلانا ہوتا ہے، حکمران ریاست اور اس کے رہنے والوں کی کسی ایک ضرورت بارے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اسے پورا کریں یا اسے کل کے لئے چھوڑ دیں بالکل اس طرح جیسے کسی باپ کو یہ نہیں پوچھنا چاہئے کہ وہ اپنے بچے کو پہلے روٹی دے یا کپڑے۔ صحت کو اہم سمجھے یا تعلیم کو، تمام ضروریات کی فراہمی اس کی بنیادی ذمہ داریوں کا حصہ ہے ، ہاں، سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ کے پاس وسائل ، وقت یا حوصلے کی کمی ہو اور میرا گمان ہے کہ آپ کے پاس ان تینوں میں سے کسی شے کی بھی کمی نہیں ۔ حکومت کے پاس وہ تمام وسائل موجود ہیں جو دہشت گردی کا قلع قمع کر سکتے ہیں ، پاک فوج کا کہنا ہے کہ وہ بہت ہی مختصر مدت میں شمالی وزیرستان کو کلئیر کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود اگر حکومت دوسری راہ اختیار کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ مجھے یہ سوال ہمیشہ عجیب لگتا ہے کہ آپ نے پچھلے بارہ ، تیرہ سال دہشت گردوں کے خلاف لڑ کے دیکھ لیا آپ کو کیا ملا، یہ سوال کرنے والوں سے میری التماس ہے کہ وہ اس سوال کوہم جیسے جاہلوں کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کرنے کے لئے ہی رہنے دیں ورنہ مہذب دنیا کے سامنے تو یہ سوال ہی بودا ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے چوروں، ڈاکووں، قاتلوں سمیت دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں مگر ا سکے باوجود جرائم ختم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ، کیا یہ تھیوری قابل قبول ہونی چاہئے کہہمیں جرائم پیشہ افراد کا راستہ روکنے اور کڑی سزائیں دینے کی بجائے ان کے خلاف قوانین بنانے بند کر دینے چاہئیں، دنیا کے تمام ممالک کو اب پولیس کا ادارہ ختم کر دینا چاہئے کیونکہ یہ جرائم پیشہ افراد تو صدیوں کی جدوجہد اور لڑائی کے بعد بھی قابو میں نہیں آ رہے۔ معاشرے کا امن تباہ کرنے والوں اور معاشرے کو امن دینے والوں کے درمیان یہ لڑائی تو ازل سے جاری ہے او رابد تک جاری رہے گی مگر جب ہم اپنی سرزمین پر اس لڑائی پر بات کرتے ہیں تو اس میں وقت کو خاص اہمیت حاصل ہوتی چلی جا رہی ہے۔
جناب وزیراعظم! پارلیمانی نظام میں کسی بھی جمہوری منتخب رہنما کو یہ سوال اس لئے نہیں کرنا چاہیے کہ جمہوریت مختلف مسائل حل کرنے کے لئے مختلف لوگوں پر ذمہ داریاں عائد کرتی ہے، بلاشبہ آج سے چار ، سوا چار سال بعد قوم کے سامنے آپ انتخابی مہم میں ووٹ لینے کے لئے حاضر ہوں گے تو وہ آپ ہی سے ان تمام مسائل کے حل بارے جواب مانگے گی مگر اس سے پہلے بہرحال آپ ہر مسئلے کے حل کے لئے ماہر مگر الگ الگ ٹیم کا چناؤ کریں گے۔ میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں کہ پاکستان کے لئے ہاکی ، کرکٹ اور کبڈی سمیت بہت سارے کھیلوں میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے اور ان کھیلوں کے لئے انتظامات کرنا کھیلوں کے وزیر اوراس کے ماتحت وزارت کی ذمہ داری ہے لیکن جب آپ کے سامنے کرکٹ کے ایشیاء کپ کا چیلنج ہو گا تو آپ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی ٹیم کا ہی چناؤ کریں گے اور جب ہاکی کا ورلڈ کپ سامنے ہو گا تو اس کے لئے ہاکی کے کھلاڑیوں کو مقابلے کے لئے بھیجا جائے گا، اسی طرح جب آپ نے سیکورٹی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے تواس کے لئے آپ کے پاس وزیر داخلہ، وزارت داخلہ اور متعلقہ ایجنسیوں کی صورت میں بہترین ٹیم ہونی چاہئے جو دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکے لیکن جب آپ انرجی کے بحران کے حل کے لئے ٹیم میدان میں اتارتے ہیں تو وہ بہرحال وزیر داخلہ کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ آپ کی ذمہ داری جتنی مختصر ہے، اتنی ہی بڑی اور بھاری بھی ہے کہ آپ نے کامیابی کے حصول کے لئے درست ٹیم کا چناؤ کرنا ہے، ہاں اگر آپ شاہد آفریدی کوہاکی کھیلنے کے لئے بھیج دیں گے یاکبڈی کے کھلاڑیوں سے بات چیت کے ذریعے کامیابی کا خواب دیکھیں گے ۔۔۔ تو جو صورتحال برپا ہو گی اس پر مجھے تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے جب پنجاب میں سپورٹس فیسٹیول پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ کیا بجلی کا بحران حل ہو گیا اور کیا بے روزگاری کا خاتمہ ہو گیا کہ یہ کھیل تماشے ہو رہے ہیں تو میں بہت ہی واضح جواب دیتا ہوں کہ وزیر کھیل اور ڈی جی سپورٹس کی ذمہ داری یہ ہرگز نہیں کہ وہ بجلی کا بحران حل کریں یا بے روزگاری کے خاتمے کے لئے حکمت عملی ترتیب دیں۔ ان کی ذمہ داری کھیلوں کے بہترین مقابلے منعقد کروانا ہے اور وہ اپنی ذمہ داری بہت بہتر طور پر سرانجام دے رہے ہیں۔ سوال تو وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی بالکل پرفارم ہی نہ کررہا ہوجیسے تھر میں بدترین قحط سے درجنوں معصوم بچے اپنی زندگی ہار گئے مگر جن لوگوں نے وہاں گندم کی فراہمی یقینی بنانی تھی وہ بھی ناچ گانوں میں لگے رہے۔ یہاں بھی کلچرل فیسٹیول کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں، اعتراض تو ان پر ہے جن کی ذمہ داری بچوں کو بے کسی کے عالم میں مرنے سے بچانے کی کوششیں کرنا تھا۔
جناب وزیراعظم! جہاں تک میں سمجھا ہوں اس سوال کا اصل مقصد ترجیحات کا تعین ہے کہ پہلے امن و امان بحال کیاجائے یا لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے اقدامات ہوں ۔ ابھی آپ نے اس میں ڈوبتی ہوئی معیشت کا سوال شامل نہیں کیا، یہ بحران بھی آپ کی حکومت نے ہی حل کرنا ہے ۔ یہ دیکھنا آپ کا کام ہے کہ سکیورٹی، انرجی اور اکانومی، تینوں بحرانوں کو حل کرنے کے لئے آپ نے چودھری نثار علی خان، خواجہ آصف اور اسحاق ڈار کی سربراہی میں جو ٹیمیں میدان میں اتار رکھی ہیں ، وہ یہ مقابلے جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یا نہیں۔ انرجی بحران پر تو اس وقت شہباز شریف بھی فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں اور انہوں نے اپنے کھیل سے خود کوسیاست کا شاہد فریدی منوایا ہے۔ لہذا سکیورٹی اور اکانومی بحرانوں کے مقابلے میں مجھے انرجی کے مقابلے میں جیت کا یقین ہے مگر دوسری طرف اکانومی کے ذریعے یہ تینوں ایشو ز ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لہذا یہ ضروری ہے کہ آپ تینوں میدانوں میں ایک ساتھ ہی پرفارم کریں۔ کسی بھی ایک میدان میں ناکامی آپ کی دوسری کامیابیوں کو بھی گہنا دے گی۔ جمہوری پارلیمانی نظام کے باب میں اجتماعی ذمہ داری کا باب بہت اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ایک وزیر کی ناکامی پوری کابینہ ، پوری حکومت کی ناکامی سمجھی جاتی ہے۔ اگرآپ کی حکومت پولیو اور ڈینگی کا مقابلہ نہیں کرپاتی تو بنیادی طو رپر وہ متعلقہ وزیر اور وزارت کی ناکامی ہو گی مگر مجموعی طور پرپوری حکومت کو ناکام سمجھاجائے گا، اسی طرح وفاق میں اگر سیکورٹی کا بحران حل نہیں ہوتا یا لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہتا ہے تو یہ بھی صرف چودھری نثار علی خان یا خواجہ آصف کی نہیں مسلم لیگ نون کی پوری حکومت کی ناکامی ہو گی ۔
جناب وزیراعظم ! آپ کی مراد یقینی طور پر یہی ہو گی کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے مگر آپ ان تمام مقابلوں کو ہنستے مسکراتے جیت سکتے ہیں اگر آپ کے پاس متعلقہ کھیل کے وہ کھلاڑی موجود ہیں جو جیتنے کے لئے پوری ایمانداری کے ساتھ بھرپور محنت کر سکتے ہیں۔ یہ سوال تو ان آمریتوں کو کرنا چاہئے جو ون مین شو پر چلتی ہیں۔ آپ کی ذمہ داری تو صرف اتنی ہے کہ آپ تجاویز لیں، ان تجاویز کو جانچیں اور ان پر فیصلے کرتے ہوئے اپنی ٹیم سے نتائج مانگیں، کام وہ ٹیم کرے گی اور اگر وہ نتائج ڈیلیور نہ کر سکے تو آپ اس ٹیم کو فارغ کرتے ہوئے اس سے بہتر کھلاڑیوں کا چناؤ کر لیں تاکہ مقررہ وقت کے اندر اندر آپ کی حکومت نتائج دے سکے۔ مجھے تو آپ کا سوال سن کے حیرانی ہوئی کہ آپ پہلے سکیورٹی ٹھیک کریں یا انرجی کا بحران، میرا جواب یہ ہے کہ جناب وزیراعظم آپ کو یہ دو ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سارے بحران بھی حل کرنا ہیں اور ایک ساتھ حل کرناہیں۔۔۔ اور اب نو ، دس ماہ گزرنے کے بعد یہ سوال نہیں بنتا، اب تو یہ بتانے کا وقت آ رہا ہے کہ آپ نے جو سیٹی بجائی تھی، ون، ٹو ، تھری ، گو کہتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں کو میدان میں اتار ا تھا، وہ کہاں تک پہنچے، کتنے گول کئے، کتنے رنز بنائے،مخالفین کی کتنی وکٹیں لیں اور آپ ابھی یہ پوچھ رہے ہیں کہ کون سا مقابلہ پہلے کیا جائے۔ مجھے حیرانی ہوئی۔