امریکی پراپیگنڈے کو تقویت!
تجزیہ: چودھری خادم حسین
دونوں بیان ایک ہی روز اور ایک ہی پلیٹ فارم کے توسط آئے اور دونوں ہی نے نئی سوچ اور نئی فکر پیدا کردی ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکومت نے سیز فائر قبول کر کے اور کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ رابطے کے بعد مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کرکے ان (شدت پسندوں ) کو ریاست کے برابر قرار دے دیا ہے تو یہ جمعیت علماءاسلام (ف) کے مرکزی امیر اور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی طرف سے کہی گئی، وہ بھی قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن یقیناً جتنے اچھے مقرر ہیں اس سے بہتر سیاست دان ہیں۔ وہ دینی سکالر اپنے حلقے اور مدارس میں ہوں گے، لیکن عملی سیاست میں وہ سیاست دان ہیں اور بہترین حکمتِ عملی سے اپنے اور اپنی جماعت کے لئے جگہ بناتے ہیں، آج کل بھی ان کی جماعت حکومت کی حلیف ہیں، ان کے ایک مہربان مولانا شیرانی اسلامی نظریہ کونسل کے چیئرمین ہیں تو دو مرکزی وزیر ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کو ابھی تک محکمے الاٹ نہیں ہوئے۔ مولانا نے قومی اسمبلی میں مذاکرات کو براہِ راست مذاق قرار دینے کی بجائے یہ کہہ کر یہی بات کردی کہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان والے ایک دوسرے سے مذاق کررہے ہیں، مولانا کہتے ہیں مذاکرات ایک فریق سے کیوں، فاٹا میں موجود سبھی فریقوں سے بات کیوں نہیں کی جاتی ، وہ دراصل اپنی تجویز پر عمل چاہتے تھے کہ جوگرنیڈ جرگہ انہوں نے بنوایا تھا اس کے ذریعے امن کی بات کی جائے نہ صرف ان کی یہ بات نہیں مانی گئی، الٹا مذاکرات کا سارا بوجھ مولانا سمیع الحق کے کندھوںپر لاد دیا گیا، جو جمعیت علماءاسلام (س) کے سربراہ ہیں اور یہ حصہ کبھی جمعیت علماءاسلام ہی کا حصہ تھا، اب ہر دو ایک دوسرے کے حریف ہیں، یوں ان کی برہمی کی وجہ ظاہر ہے۔
دوسری بہت ہی خوفناک بات ہے، جو وفاقی وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی ہی میں بحث سمیٹتے ہوئے کہہ دی اور اس کی وضاحت نہیں کی، یہ زیادہ تکلیف دہ ہے انہوں نے نائن الیون کی یاد کرادی، وہ کہتے ہیں ، ہم نے اسلام آباد پر طیارے کے ذریعے حملے کا منصوبہ ناکام بنایا ہے، چودھری نثار علی خان قادر الکلام ہیں وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہم کچھ نہیں کہتے۔گزشتہ دور میں پانچ سال تک قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے انہوں نے پیپلز پارٹی والوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، ان کی نسبت سید خورشید شاہ ”جیسے بچے“ ہیں، وہ کچھ کہتے بھی ہیں تو شیر ہی گھول کر پیتے ہیں، جبکہ چودھری نثار یہ کہہ کر قومی مفاد میں وہ تنقید سے گریز کرتے ہیں، پھر بھی کہتے ہیں پچھلے دور میں کیا کچھ نہیں ہوا، اب انہوں نے طیارے والی بات کر کے امریکیوں کے پروپیگنڈے کو تقویت دی ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کیا جاتا ہے، ابھی آج ہی امریکی پرنٹ میڈیا کی ایک خبرہمارے میڈیا کی زینت بنی ہے،جس میں حکومت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا کہ اس کی مذاکرات والی حکمتِ عملی سے شدت پسندوں میں اختلاف پیدا ہوئے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں القاعدہ کا حمائتی گروپ سرگرمِ عمل ہے جو پاکستان کے ایٹم پر قبضہ کرنا چاہتا اور شریعت کے نام پر حکومت بھی اپنی پسند کے لوگوں کے نام پر حکومت حکومت بھی اپنی پسند کے لوگوں کو دلوانا چاہتا ہے۔ چودھیر نثار اگر طیارے کے حملے کی تفصیل نہیں بتاتے کو یہ الہام موجود اور امریکی پروپیگنڈہ ببھی جاری رہے گا اور بات میں وزن پیدا کیا جائے گا۔
اگرچہ مذاکرات کار کمیٹیاں اب شریعت کی بات نہیں کرتیں ، لیکن طالبان تو اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہے اور کیا ہم ان کی منشاءوالی شریعت کا نفاذ منظور کرنے جارہے ہیں؟کہ پاکستان کے آئین کے مطابق قوانین کو اسلامی بنانے کا جو بھی عمل ہوگا وہ ان (طالبان) کی تشریح کے مطابق ہوگا؟ یہ سوالات ہیں جو اب معاشرے میں پوچھے جارہے ہیں اور جواب واجب ہے۔
دوسری طرف چیف جسٹس(ر) افتخار چودھری بھی اب میدان عمل میں ہیں وہ تو آئینی بات کرتے ہیں، انہوں نے کہاکالعدم تنظیم یا تنظیموں سے بات کرنا خلاف آئین ہے، افتخار چودھری نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز باراور؟؟؟؟؟سے کیا، جن کے لئے انہوں نے اپنے دور میں آنکھیں بچھائے رکھی تھیں، یقیناً مستقبل میں خاصے اہم نظر آئیں گے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور کمانڈرز کی ماہانہ میٹنگ ہوچکی، قدرتی طور پر اس میٹنگ میں پیشہ ورانہ امور تو ایجنڈے کے طور پر زیرِ غور آئے ہوں گے تاہم شدت پسندی ، دہشت گردی اور مذاکرات یا آپریشن کے معاملات پر بھی تو بات ہوئی ہوگی، یوں عسکری قیادت نے حاصل معلومات کی روشنی میں اپنا موقف بنا لیا ہوگا، کچھ حصہ آئی ایس پی آر کے ذریعے سامنے آئے گا اور بعض فیصلے حاضرین تک محدود رہیں گے، ہم کوئی بات یا تبصرہ نہیں کرتے، فوج کے پانے بیان پر اکتفا کریں گے، تاہم یہ بات طے ہے کہ اس میٹنگ کے بعد وزیر اعظم میں نواز شریف کو عسکری قیادت کے جذبات اور احساسات سے ضروع آگاہ کیا جائے گا ،آنے والے دن بہت کچھ بتائیں گے اور سمجھائیں گے، قوم کا یہ فریضہ انجام دینے کے لئے خود کچھ کرنا ہوگا ،صرف ایک ہی نظرئیے کے حامل طبقے تک محدود ہونا مناسب نہیں ہے۔