وہ رجحان جو پاکستانی مَردوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے
لاہور(شاہدنذیر چودھری،سپیشل ایڈیٹر)” ایک She maleسرجری پر پانچ سے بیس لاکھ روپے تک خرچ ہوتے ہیں اور اس کام کے ماہر صرف چند ایک کاسمیٹک سرجن ہیں جو مکمل مردانہ اعضاءختم کر کے ایک مرد کو ہیجڑا بنادیتے ہیں۔ She maleکا گروا(شوہر)آپریشن کے تمام اخراجات خوش دلی سے اٹھاتاہے۔ kpk کے علاوہ جنوبی پنجاب کے وڈیرے اور امیر لوگ اپنی مورت (She male)کے اپنی بیوی سے زیادہ نخرے اٹھاتے ہیں“
سرمگیں آنکھیں، کھلتی ہوئی رنگت، قلمی ناک، نازک ہونٹوں اور شولڈر کٹ بالوں والی چلبلی آشاکی زبان سے پاکستانی معاشرے میں پھیلتے اس سفاک اور شرمناک رجحان کے بارے انکشافات سن کرسرشرم سے جھک جاتا ہے۔آشا اگر بولے نہ تو کوئی گماں نہیں کر سکتا وہ خود ساختہ ہیجڑا ہے جو آج سے دو سال پہلے تک مکمل مردانہ خصوصیات رکھتا تھا مگر غربت ، جنسیت اور سماجی رویوں نے اسے تیسری دنیا کا باشندہ بنا دیاہے۔ لچکیلی کمر اور درمیانی قامت کی آشا اسلام آباد سے لاہور کے پوش ہسپتال میں اپنے مخصوص سرجن سے ”روٹین چیک اپ“کے لئے آئی ہوئی تھی۔ آشا نے اعتماد میں لیتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہ کاسمیٹک سرجن لاہور کے بہت مشہور سرکاری ہسپتال سے وابستہ ہیں اور ہم ان کے مستقل گاہک ہیں۔ جو نوجوانShe maleبننے کے خواہش مند ہوتے ہیں ڈاکٹر صاحب انہیں مردانہ بوجھ سے آزاد کر ا دیتے ہیں۔تاہم یہ خطرناک آپریشن صرف وہی مرد کراتے ہیں جن میں عورتوں سی نزاکت و اطوار،دلکشی موجود ہواور وہ خود کو ایک عورت ہی سمجھتے ہوں، اگر وہ ایک She male کے طور زندگی گزارنا چاہتے ہوںتو انکی شکل و صورت کے مطابق انکے”گروا“ مول لگاتے اور انکے تقاضے پر ہی وہ آپریشن کے بھاری اخراجات اٹھاتے ہے۔تاہم اس سے قبل وہ She male کو اسکی ڈیمانڈ پر بھاری رقم بھی ادا کرتے ہیں۔یہ آپریشن انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے اور عموماً بڑے اور مخصوص نجی ہسپتال میں کیا جاتا ہے۔آشا کی باتیں حیران کن اور دلخراش صورتحال کی عکاسی کر رہی تھیں۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں She maleکی مانگ میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ بے روزگاری سے تنگ پڑھے لکھے ایسے نوجوان جن میں قدرتی طور پر نزاکت اور نسوانی عادات پائی جاتی ہیں،وہ معاشرے میں باوقار زندگی گزارنے میں ناکام ہونے کے بعد اپنی شریفانہ جدوجہدترک کردیتے ہیں اورجسم فروش ہیجڑوں کی راہ پر چلتے ہوئے ان سے بھی آگے نکلنے کی کوشش میں مردانہ اعضاءکٹوا دیتے اور پھر ہارمونز کی ادویات کھانے کے بعد ایک She male کا روپ دھار لیتے ہیں۔یوںان کے بدن میں لڑکیوں جیسی نزاکت اور جذبات مزید ابھرآتے ہیں۔ آشا نے انکشاف کیا کہ She maleسے شادی کرنے کا رواج بہت پھیل چکا ہے۔آشاکا کہنا ہے کہ ہیجڑوں ، کھسروں، جانکھیا وغیرہ کی کئی اقسام ہیں لیکن آج کل پڑھے لکھے ہیجڑے She maleکہلانا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پرآشا نے انکشاف کیا کہ She maleکے نام پر چند این جی اوز بیرون ملک سے کروڑوں روپے فنڈز وصول کرتیں اور ہم جنس پرستی کو پرموٹ کرتی ہیں۔آشا کے مطابق جنسی ہوس میں مبتلا حکومتی عہدیدار،وڈیرے،سرمایہ دار اور بااثر افرادمبینہ طورپرShe maleکے گاہک ہوتے ہیں۔ آشانے بتایا کہ آپریشن کے بعدShe maleکو ہارمونل میڈیسن ایک عرصہ تک کھانی پڑتی ہے جبکہ ایڈز سے بچنے کے لیے وہ صرف اپنے ”گروا“ سے ہی تعلق قائم رکھتے ہیں۔آشا کے مطابق عام درجے کے She maleاپنے گروا کا باقاعدہ خرچہ بھی اٹھاتے ہیں لیکن ایلیٹ کلاس کےShe maleاپنے گروا سے وفاداری نبھاتے ہوئے اس سے ہی اخراجات لیتے ہیں۔