پھٹیچر پر سیاست

پھٹیچر پر سیاست
پھٹیچر پر سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان سپرلیگ میں پھٹیچر اور ریلوکٹے غیر ملکی کھلاڑی بلائے گئے۔ جو کھلاڑی پاکستان آئے میں ان کے نام بھی نہیں جانتا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں وہ پی ایس ایل فائنل میں شریک غیر ملکی کھلاڑیوں کے حوالے سے بات کرتے نظر آئے۔ بعدازاں پریس کانفرنس میں عمران خان نے کہاکہ دو تین کھلاڑیوں نے نہیں آنا تھا، باقی جو پھٹیچر کھلاڑی ہیں انہوں نے تو ویسے بھی آجانا تھا۔پی ٹی آئی کے چیئرمین نے پی ایس ایل چیئرمین نجم سیٹھی اور انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے یہ ایسے ہی کسی کو پکڑ کرلے آئے ہیں، کسی کو افریقہ سے اور کسی کو کہیں اور سے۔

واضح رہے کہ فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے غیر ملکی کھلاڑیوں لیک رائٹ، کیون پیٹرسن، ریلی روسیو ، تھیسا راپریر اور ٹائمل مل نے لاہور آنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد ان کی جگہ بنگلہ دیش کے انعام الحق، زمبابوے کے سین اروائن اور ایلٹن چیگمبورا، جنوبی افریقہ کے مور نے وان ویک اور ویسٹ انڈیز کے ریاض ایمرت کو سکواڈ میں شامل کیا گیا تھا جبکہ ٹیم کے کوچ سرویوین ریچرڈز ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔جبکہ پشاور زلمی کے تمام غیر ملکی کھلاڑی فائنل کھیلنے کیلئے لاہور آئے تھے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی نجی ٹی وی کے پروگرام میں عمران خان اپنے الفاظ اور موقف پر نہ صرف قائم رہے بلکہ ستمبر میں آئی سی سی الیون کی آمد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ایسا نہ ہو کہ انہیں آئی سی سی الیون کے لئے بھی پھٹیچر کا لفظ استعمال کرنا پڑے۔عمران خان کے اس متنازعہ بیان جہاں ایک جانب مخالفین کو ان کی کردار کشی کا ایک اور موقع فراہم کیا تو دوسری جانب انکی اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں کو بھی مشکل میں ڈال دیاہے۔ عمران خان کی جانب سے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے لئے تضحیک آمیز الفاظ کے استعمال کے متعلق رکن پارلیمنٹ ایم کیو ایم، میاں عتیق نے کہا کہ عمران خان نے بہت ہی بچگانہ حرکت کی ہے یہ قومی لیڈرز والی بات نہیں ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مناسب بیان نہیں ہے اور اس کا جواب دینا اور زیادہ غیرمناسب ہو گا۔ شیخ روحیل اصغر بولے، شکر ہے کہ یہ بات اردو میں کہی گئی لیکن اگر اس کا ترجمہ ان کھلاڑیوں کو سنایا گیا تو مہمانوں کی کیا عزت رہ جائے گی؟ ۔ تہمینہ دولتانہ بولیں کہ عمران خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، وہ بتائیں کہ کیا وہاں پر یہی کچھ سکھایا جاتا ہے؟ ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے مہمان کھلاڑیوں کیلئے تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال قابل مذمت ہے، بحیثیت سیاستدان عمران خان کو اپنے الفاظ کا چناؤ ذمہ داری سے کرنا چاہئے۔پارٹی چیئرمین کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ عمران خان کا مطلب تھا کہ فرنٹ رینکنگ کے بہت سے کھلاڑی پاکستان نہیں آئے اور یہ حقیقت ہے۔پارٹی ترجمان فواد چوہدری کے مطابق عمران خان کا مطلب یہ تھا کہ کوئی نامور کھلاڑی پاکستان نہیں اور یہ بات درست ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے پارٹی رہنماؤں کو مصیبت یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہو بلکہ ماضی قریب میں متعدد بار انہیں اس جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑچکا ہے۔ پارٹی قائد عمران خان کی دیکھا دیکھی اب تحریک انصاف کے کارکنان بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں اور تحریک انصاف کی کسی بھی پالیسی پر تنقید کرنے والے کو گالیاں دینا سیاست سمجھنے لگے ہیں۔ پارٹی رہنما ؤں نے اپنے قائد کے دفاع میں مختلف وضاحتیں اور منطق پیش کی لیکن رہنماؤں کی جانب سے الفاظ پھٹیچر کی تشریح کارآمد دیکھائی نہیں دی اور عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
لفظ پھٹیچر کچھ روز ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہا، سوشل میڈیا پر جہاں ایک جانب عمران خان کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر عمران خان کے مذکورہ بیان کی ویڈیو جاری کرنے والے صحافیوں پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے اسے صحافتی اصولوں اور اخلاقیات کے منافی قرار دیا۔ یہ بات درست ہے کہ صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران اس قسم کے واقعات عموماً پیش آتے ہیں جب کوئی سیاسی رہنما یا کوئی بیوروکریٹ صحافیوں پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے ان سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہیں ۔ اس قسم کی گفتگو سوشل میڈیا جاری کرنا یقیناً غیر اخلاقی فعل ہے لیکن یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ عمران خان کی یہ ویڈیو کسی نجی محفل میں کی جانے والی گفتگو نہیں بلکہ پریس کانفرنس شروع ہونے سے کچھ لمحہ قبل کی گفتگو ہے۔ کسی بھی سیاسی رہنما کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ملک آئے مہمانوں کیلئے اس قسم کے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرے ۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کو اپنی انا کا مسأہ بنانے کی بجائے بین القوامی کھلاڑیوں کیلئے لفظ پھٹیچر استعمال کرنے پر شاہ محمود قریشی کی طرح اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگیں۔ سیاسی رہنما عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کی زندگی اس کے کارکنان کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے۔ سیاسی کارکنان اپنے قائد کے رویئے اور کردار سے سبق سیکھتے ہیں اور وہی کردار اور رویہ خود اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔صحافیوں اور پارٹی رہنماؤں کی موجودگی میں ہونے والی گفتگو کے دوران اس قسم کے الفاظ کا استعمال یقیناً شرمناک ہے ۔ سیاسی رہنماؤں کو دوست احباب کے ساتھ ہونے والی غیر رسمی گفتگو میں بھی نازیبا الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے تاکہ انکے کارکنان دوسروں کو گالیاں دینے کی بجائے مہذب انداز گفتگو سیکھ سکھیں۔
(شہزاد یوسف زئی کا تعلق مردان سے ہے۔ اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک اخبارکے لئے کام کرتے اور کالم لکھتے ہیں ۔ان کے کالموں کا موضوع عام طور پر صوبہ خیبرپختونخوا کے مسائل پر مبنی ہوتا ہے ۔ )

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -