جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت کب تک؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر 22غیر رجسٹرڈ جعلی ادویات بنانے والے فیکٹری مالک کو کمرۂ عدالت ہی میں گرفتار کرلیا گیا جبکہ فیکٹری کو سیل کرتے ہوئے مالک کے اثاثوں کی چھان بین کی بھی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ فرائض میں غفلت برتنے پر آرپی او بہاولپور کو معطل کردیا گیا۔ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سماعت کرتے ہوئے کی، جس کی سربراہی چیف جسٹس کررہے ہیں۔ ایف آئی اے اور نیب حکام کو حکم دیا گیا کہ وہ جعلی ادویات بنانے والی کمپنی کے اثاثوں کی چھان بین کرکے مقدمات درج کرائیں۔ جعلی ادویات کی فروخت کے بارے میں شکایات منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ مہنگے داموں یہ جعلی دوائیں خرید کراستعمال کرنے والے مریض شکایت کرتے ہیں کہ انہیں افاقہ نہیں ہوتا۔ جعلی دوائیں تیار کرکے مارکیٹ میں ہی فروخت نہیں کی جاتی ہیں، مک مکا اور ملی بھگت سے سرکاری ہسپتالوں میں بھی سپلائی کی جاتی ہیں۔ اربوں روپے کمانے والے فیکٹری مالکان عموماً یہ ادویات چوری چھپے ملک کے بعض حصوں میں سپلائی کرکے لوگوں کی صحت سے کھیلتے ہیں۔ اس ناجائز کاروبار کے بارے میں عام شہریوں کو تو اچھی طرح علم ہوتا ہے لیکن سرکاری محکموں کے افسروں اور اہلکاروں کو بقول اُن کے معلومات ہی نہیں ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کارروائی نہ کرنے پر متعلقہ علاقے کے آر پی او کو فوری طور پر معطل کردیا ہے، سوال یہ ہے کہ محکمہ صحت اور متعلقہ ایجنسیوں کی طرف سے کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی، متعلقہ سرکاری حکام آنکھیں بند کرکے خاموش کیوں بیٹھے رہتے ہیں، یہ صرف ایک فیکٹری کا معاملہ نہیں، مختلف شہروں میں ایسی فیکٹریاں موجود ہیں جہاں جعلی ادویات تیار کرکے دھڑلے سے فروخت کی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ سال ہا سال تک چلتا رہتا ہے، جو فیکٹری سپریم کورٹ کے حکم سے سیل کی گئی ہے وہاں مقامی سطح پر کارروائی بوجوہ نہیں ہوسکی، فرائض سے مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کا نوٹس اعلیٰ سطح پر لینے کی ضرورت ہے، متعلقہ محکموں کی ٹیموں کو اس مکروہ دھندے کے خلاف باقاعدہ مہم چلانی چاہئے تاکہ لوگوں کی صحت سے مزید نہ کھیلا جائے، کتنی زیادتی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ جعلی ادویات خریدنے پر مجبور ہیں اور اس کا کسی سطح پر کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا ہے، یہ مکرو دھندہ کب تک جاری رہے گا؟