چشمے پر پہنچ کر لائن سے دوگز کے فاصلے پر انھیں لٹیا پڑی ملی جو سورج کی روشنی میں جمک رہتی تھی۔وہ لوگ لٹیا کے پاس پہنچے توقریب ہی خون کے دھبے نظر آئے۔
دھوتی اور چھڑی پڑی ملی اور ماگھ یعنی شیروں کے پیروں کے نشانات بھی دکھائی دیے۔۔۔اس سے کچھ فاصلے پرا یک جھاڑی میں سوہن لال کی لاش پڑی تھی۔جس کا صرف سر،سینہ اور ہاتھ پیر باقی تھے۔
وہ لوگ جھاڑی کی طرف بڑھے۔۔ایک نہایت لاغرو نحیف شیرڈگمگاتا جھاڑی سے نکلا اورکسی معذور بلی کی طرح دانت نکال کر ’’کھیں‘ ‘ کرتاہوا پہاڑ پر چڑھ گیا۔شیر کو دیکھ ان لوگوں کے ہوش اڑ گئے۔۔خوا وہ کتنا ہی نحیف ونزاد کیوں نہ ہو،آخر تھا توشیر۔۔۔ان لوگوں نے پہلے تو خوب شوروغل کیا۔پھر سوہن لال کا باقی ماندہ جسم اٹھاکر اسٹیشن لے آئے۔
یہ اس آدم خور کی ابتدائی واردات تھی۔جن لوگوں نے اس کو دیکھا تھا،ان کا بیان ہے کہ اس کو چلنے میں نہ صرف دقت ہو رہی تھی بلکہ کمزوری کی وجہ سے رفتار میں لڑکھڑا ہٹ اور آواز میں بے بسی بھی تھی۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیکن رفتہ رفتہ اس کی طاقت عود کر آئی،کیونکہ سوکھی سوئیاں ریلوے اسٹیشن کے اطراف و جوانب میں اسے کافی شکار میسر آنے لگا۔۔۔دو سال تک یہ شیر اس ریلوے اسٹیشن کے عملے اور مسافروں کیلئے قہر مجسم بنا رہا۔متعدد شکاریوں کی کوشش،اسٹیشن پر مسلح پولیس کے تعین اور بہت کچھ حفاظتی تدابیر کے باوجود اس آدم خور کی تاخت و تاراج میں کمی نہیں آئی۔
حتیٰ کہ سوکھی سوئیاں پر تعنیات عملے کو وہاں رکھنا مشکل ہو گیااور ریلوے کے حکام یہ اسٹیشن بندکرنے پر غور کرنے لگا۔
اس وقت تک ایک سو چھبیس جانیں تلف ہو چکی تھیں۔
میں سوکھی سوئیاں پہنچا تو اسٹیشن کا عملہ کمروں میں مقفل تھااور مسافر غائب تھے۔۔۔سارا اسٹیشن ویران پڑا تھا۔میں نے اپنے پرانے خلاصیوں سے پوچھ گچھ کی،کچھ گاؤں کے حالات دریافت کیے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مچان پر بیٹھ کر اور گارے کے ذریعے اس شیر کو ہلا ک کرنے کی کوشش کامیاب نہیں رہے گی۔تاہم شیر کی عادات کے پیش نظر بھینسے کے بجائے میں نے ایک بکری خریدی اور چشمے کے کنارے پہاڑ کے دامن میں اس جگہ باندھی،جہاں اس آدم خور نے دو سال قبل اسٹیشن ماسڑ کو مارا تھا۔تین روز یہ بکری اس جگہ بندھی رہی اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
چوتھے روز میں نے بکری کو کھلوا کر اس مقام سے ایک میل دور پہاڑ کے اوپر جنگل میں ایک جھرنے کے قریب بندھوایا۔یہاں میں نے مچان کیلئے ایک اچھا درخت منتخب کرلیا تھا۔
دوسرے روز مجھے امید تھی کہ گاراضرور ہوا ہو گا کیونکہ جس مقام پر بکری باندھی تھی وہاں بکثرت ماگھ تھے اور جھرنے کے عین نیچے کسی قدر نشیب میں جہاں پانی بھر جانے کی وجہ سے ایک چھوٹا سا حوض بن گیا تھا۔شیر کے بیٹھنے اور لیٹنے کے نشانات بھی تھے۔لیکن میں نے جاکر دیکھا تو بکر ی صحیح سالم تھی۔اطراف کی زمین جا بغور جائزہ لیا،ہر نشان کو اچھی طرح دیکھا اور وہاں سے تھوڑی ہی دور پر گھنے درختوں کے ایک جھنڈ کے نیچے شیر کے تازہ ماگھ دیکھ کر میں ٹھٹک گیا۔اس وقت میرے ساتھ میرا ملازم دلاور اور گاؤں کے دو آدمی تھے۔ماگھ سے ایسا اندازہ ہوتا تھا جیسے شیر ابھی ابھی ادھر سے گزرا ہے۔
میں نے ان دنوں گاؤں والوں کو ہدایت کی کہ وہ جلد از جلد درخت پر چڑھ جائیں۔وہ لوگ بھی خطرہ بھانپ گئے اور درختوں کی اونچی شاخوں پر بحفاظت بیٹھ گئے۔میں نے ان کو سمجھادیا تھا کہ میری واپسی تک درختوں سے نیچے ہر گز نہ اتریں۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان ہدایات کے بعد میں دلاور کے ساتھ لے کر ماگھ دیکھتا ہو ا آگے بڑھنے لگا۔
ماگھ بڑے عجیب و غریب تھے۔پچھلے دونوں پیروں کے نشانات تو عام جانوروں کی طرح تھے۔لیکن اگلے دونوں پنجے برابر بالکل لائن میں تھے۔شیر کی عام رفتار نہ ہو تی ہے کہ اس کا ایک جانب کا اگلا پنجا اور پچھلا پنجہ ایک ہی وقت میں اٹھتا ہے۔لیکن !شیر کے ماگھ سے ایسا ظاہر ہوتا تھا،جیسے اس کے دونوں اگلے پنجے بیک وقت اٹھتے ہوں،بلکہ مجھے ایسا لگا جیسا شیر اچھل اچھل کر خرگوش کی طرح چلتا ہے۔غالبا اس کے اگلے شانوں کی ہڈیاں کسی وجہ سے ٹوٹ کر جب جڑیں تو شانوں کے جوڑ بھی جڑ گئے اورحرکت کے قابل نہیں رہے۔یہی وجہ تھی کہ شیر اچھل اچھل کر چلتا تھا۔اگر یہ قیاس درست تھا تو اس آدم خور کی وجہ صاف سمجھ میں آجا تی ہے۔(جاری ہے )