’’دشمن کا پیشاب بند کرانے کے لئے میں نے جادو کرایا تو ۔۔۔‘‘ اپنے کولیگ سے انتقام لینے و الے کی عبرتناک کہانی 

Mar 08, 2018 | 03:59 PM

نظام الدولہ

میں یہ ہولناک واقعہ سنا کر آپ سب کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کسقدر ظالمانہ سلوک کرنے پر اتر آتا ہے لیکن تقدیر خود اسکو امتحان میں ڈال دیتی ہے۔
یہ میرے دوست بشارت کا قصہ ہے،وہ وہمی انسان تھا اور اپنے وہم کو سچ ثابت کرنے میں لگا رہتا تھا،میں اسکا واحد دوست تھا جس پر اعتماد کرتا تھا اور کہتا تھا ’’ صرف دنیا میں ایک تم ہی ہو جو مجھے سمجھ سکتے ہو ‘‘میں بھی اسکی ذہنی کیفیت جانتا تھا لیکن اسکا دل نہیں دکھاتا تھا ۔ 
ا سنے مجھے بتایا تھا کہ دفتر میں اکثر لوگ اسکو تنگ کرتے تھے۔جس کی وجہ سے مالک بھی اسکی سرزنش کرتا رہتا تھا ۔بشارت ان کے لئے بددعائیں کرتا اور ایسے طریقے ڈھونڈتا جس سے ان مخالفوں کے منہ بند کرسکے۔اپنی پریشانی کی وجہ سے وہ عاملوں کے پیچھے بھی بھاگتا پھرتا۔
ایک دن وہ ایک ایسے عامل سے جا ملا جس کے بارے مشہور تھا کہ وہ دشمنوں پر بڑا گہرا وار کرتا ہے ۔وہ عامل کے پاس پہنچا تو ا س نے بتایا کہ میرے پاس ایک ایسا عمل ہے جس سے دشمن کا پیشاب بند کردیا جاتا ہے۔ عامل نے اسے ایک کاغذ دیا جس پر دشمن کا پیشاب بند کرنے کا انتہائی مکروہ اور پراسرار سا عمل لکھا ہوا تھا ۔اس پر درج تھا اگر تمہیں اپنے دشمن کو پریشان کرنا ہے تو کسی بھی اتوار کو دوپہر ڈھلتے ہی ایک چھچھوندر شکار کر کے اس کی کھال اتار لو. پھر دشمن نے جہاں پیشاب کیا ہو وہاں کی مٹی لے کر اس کھال میں بھر کر کسی اونچی جگہ ٹانگ دو تو دشمن کا پیشاب بند ہو جائے اور اس وقت تک نہ کھلے گا جب تک مٹی کو کھال میں سے نکال نہ دیا جائے.
بشارت نے پوچھا کہ کیا اسکو یہ عمل خود کرنا ہوگا۔عامل نے اسے عمل کرنے کا طریقہ سمجھایا اور اس سے گیارہ ہزار روپے وصول کرلئے اور ساتھ ہی کوئی سفوف سا دیا جو اسے دوران عمل استعمال کرنا تھا ۔اسکے بقول عامل کا یہ جادوئی پوڈر لوہا بند کے نام سے مشہور تھا۔
بشارت بیان کرتا ہے کہ یہ کام آسان نہیں تھا۔لیکن ایک دن سٹاف کے کچھ لوگوں کے ساتھ اسے ایک گاوں جانا پڑا تو اسے یہ موقع مل گیا ۔ان لوگوں میں اسکا کٹر دشمن بھی موجود تھا ۔اس نے کسی طرح گاوں کے قبرستان سے چھچھوندر تلاش کرلی اور اسے چھپا کر جب وہ واپس آیا تو اب اس سے اگلا مرحلہ اس سے زیادہ دشوار تھا۔اس نے بڑی کوشش کی ،سارا دن اور ساری رات دشمن پر نظر جمائے رکھی کہ کب اگلا مرحلہ پورا کرنے کا وقت آتا ہے لیکن اس کی نوبت نہ آسکی ۔کیونکہ وہاں لوگ کھلے میں پیشاب نہیں کرتے تھے اور باتھ رومز میں مٹی کہاں ؟ 

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
رات ہوئی تو بشارت بے چینی سے کبھی چھچوندر کو سہلاتا اور کبھی جادوئی پڑیا چیک کرتا ۔رات کے آخری پہر نہ جانے اسکے ذہن میں یہ شیطانی خیال کیسے آگیا کہ اس نے یہ عمل خود پر آزمانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس نے جادوئی پوڈر چھچھوندر کو کھلایا اور پھر کچھ دیر بعد اسکی کھال اتار کر اس نے اپنے ساتھ یہ عمل کرلیا اور سو گیا ۔ابھی اسکو سوئے ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک وہ چیخ مار کر اٹھ پڑا ۔اس نے بتایا کہ کوئی خوفناک سی بلا اسکا گلا دبا رہی تھی ۔ وہ اسقدر خوف کا شکار ہوا کہ جب اسے باتھ میں لے جانے کی کوشش کی گئی تو اس نے چیخیں مارنی شروع کردیں ۔اسکے کولیگ اسکو بڑی مشکل سے قابو کرکے شہر واپس آئے اور پھر اسکو چھٹیوں پربھیج کر گھر میں آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا ۔لیکن اسکی بے چینی اور خوف اسقدر بڑھ گیا کہ اسے ڈاکٹروں کے پاس لے جایا گیا ۔ایک سائیکالوجسٹ نے اسکا علاج کیا لیکن وہ ادویات سے بھی اسکو نارمل نہ کرسکا ۔مجھے جب اسکی حالت کا علم ہوا تو میں اسکے پاس گیا۔وہ مجھ پر کافی اعتماد کرتا تھا ۔مجھے دیکھ کر رونے لگا ۔میں نے اسے دلاسہ دیا اور پھر اس نے مجھے پورا واقعہ سنایا ۔میں نے اسے کچھ نہیں کہا ۔صرف اسکو یہ تسلی دی ’’ تمہارا عمل الٹ پڑگیا ہے اور اسکا علاج ہمارے مولوی صاحب کردیں گے ‘‘ میں نے ایک جاننے والے مدرسہ کے مہتمم مولانا سے رابطہ کیا اور اس سے دم کرایا اور ایک تعویذ لیکر پلایا تو ایک ہفتے بعد اسکی حالت سنبھل گئی۔لیکن ابھی اسکی بدقسمتی ختم نہیں ہوئی تھی۔ دوہفتوں بعد وہ دفتر گیا تو اسے نوکری سے جواب دے دیا گیا ۔کیونکہ یہ بات ان کے بھی علم میں آگئی تھی کہ وہ دفتر میں اپنے ساتھیوں پر دم کرکے پھونکتا رہتا ہے ،کبھی کچھ پڑھ کر دفتر میں رکھے پانی کی بوتل پر بھی پھونک دیتا تھا ۔گاوں کے دورے میں اسکی پراسرار سرگرمیاں کسی سے چھپی نہ رہ سکی تھیں۔یہ حقائق جب مالکان کے سامنے رکھے گئے تو بشارت جیسے آدمی کے لئے نارمل انسانوں کے بیچ رہنا کیسے ممکن تھا ۔ 
۔۔

(آپ بھی اپنی زندگی کے حیرت انگیز ،پراسرار واقعات لکھنا چاہتے ہیں تو اس پر ای میل کریں nizamdaola@gmail.com )

۔۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں