مادری زبانوں کے حوالے سے

مادری زبانوں کے حوالے سے
مادری زبانوں کے حوالے سے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مَیں ابھی اپنی نشست کو آگے پیچھے کر کے، کمر سیدھی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ کہ ساتھ والی نشست پر ایک صاحب دھڑام سے گرے۔ ہمارے ہاں موٹاپے کو صحت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

سو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک صحت مند آدمی تھے، ایک عدد برگر ان کے ہاتھ میں اور نوالہ ان کے منہ میں تھا، جبکہ ایک تھیلے نما لفافے میں کھانے پینے کی اشیاء بھی ان کے دائیں ہاتھ میں موجود نظر آئیں، بس میں سواریوں کی خدمت پر مامور لڑکی نے اعلان کیا۔۔۔ ہم اسلام آباد کی طرف سفر شروع کر رہے ہیں۔

تقریباً پانچ گھنٹے میں پہنچ جائیں گے، میرے ساتھ والی نشست کے صاحب نے مسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا اور کہا آپ یقیناًاسلام آباد جا رہے ہیں،مَیں نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’نہیں مَیں پنڈی تک جا رہا ہوں‘‘
میرے جواب پر انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا، مَیں نے تو جیسے تیسّے ان کا قہقہہ برداشت کر لیا،مگر اگلی نشست پر ماں کی گود میں بیٹھی ایک چھوٹی سی بچی ڈر کے مارے ماں سے لپٹ گئی۔۔۔ پچھلی نشست پر بیٹھے بزرگ نے ہماری نشست پر تقریباً جھکتے ہوئے پوچھا:’’خیریت تو ہے‘‘ مَیں نے انہیں بتایا کہ خیریت ہے۔ان صاحب نے قہقہہ لگایا ہے اب میرے ’’ہمسفر‘‘ نے میری جانب گردن موڑ کے بات کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے لئے انہوں نے اپنے پیٹ کو میری سیٹ پر دھکیلنے کے لئے چھوٹا سا جھٹکا دینا ضروری سمجھا۔۔۔ یہ تو شکر ہے میری سیٹ شیشے کے ساتھ تھی۔۔۔ ورنہ مَیں آدھا باہر ہوتا۔۔۔اب ان صاحب نے فرمایا۔۔۔ آپ کوئی دانشور قسم کے لگتے ہیں۔

مَیں نے کہا نہیں،صبح منہ نہ دھونے کی وجہ سے ایسا نظر آ رہا ہوں۔البتہ آپ مجھے شاعر کہہ سکتے ہیں،ان صاحب نے ایک قہقہہ مزید لگایا، اس بار برگر کے چند ٹکڑے میرے جسم پر آ گرے اور فرمایا کہ اگرکوئی شاعر ہاتھ منہ نہ دھوئے تو اُسے دانشور کہا جا سکتا ہے، مَیں نے کہا بالکل کہا جا سکتا ہے۔
بس اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، مَیں نے دیکھا کہ برگر کے ساتھ ساتھ وہ صاحب تھیلے میں موجود اشیاء بھی پیٹ میں اُتار چکے تھے۔ بس میں ملنے والا ’’بھوجن‘‘ تو انہوں نے، لڑکی کے ہاتھوں لیتے لیتے آدھا کھا لیا تھا۔ بس سٹاپ پر رُکی تو انہوں نے پہلے پیٹ باہر نکالنے کی کوشش کی، جس کے لئے مجھے ان کی کمر پر ہاتھ رکھنا پڑا۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں مجھے نشست کا سہارا لے کر اُٹھنا پڑا۔۔۔ مَیں نے چائے کا ایک کپ خریدا جو90روپے میں ملا۔۔۔ موٹروے پر سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ’’علاقہ غیر‘‘ میں سفر کر رہے ہیں، جہاں کچھ بھی خریدو آپ کو تین گنا زائد قیمت پر ملے گا۔۔۔ میرے ہمسفر نے بھی پہلے اپنا تھیلا مختلف اشیاء سے بھرا اور پھر چائے کا کپ خریدنے کے بعد ایک عدد برگر بھی خرید لیا۔نشست پر بیٹھتے ہی کھانے پینے کی اشیاء اور ان صاحب کے درمیان باقاعدہ مقابلہ شروع ہو گیا پنڈی پہنچنے تک یہ صاحب یہ مقابلہ جیت گئے۔
سٹاپ پر میرے دوست جامی نظام اکرم موجود کھڑے تھے،انہیں معلوم تھا کہ مَیں نے اکادمی ادبیات پاکستان کے مشاعرے میں شرکت کرنی ہے۔ دراصل اسلام آباد کی ایک تنظیم پنجابی ادبی پروار کے زیر اہتمام مادری زبانوں کے حوالے سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔۔۔ ہمیں معروف کہانی کار ملک مہر علی نے بطور خاص شرکت کا حکم نامہ بھیجا تھا اور پھر اوپر سے قمر زمان، سلیم شہزاد، محی الدین اور اختر رضا سلیمی کا حکم نامہ بھی موجود تھا، جب پہنچا تو کہانی کے حوالے سے سیشن جاری تھا۔

ہال بھرا ہوا تھا۔۔۔ اور حقیقی طور پر کافی لوگ کھڑے ہوئے تھے، تقریب چونکہ مادری زبانوں کے حوالے سے تھی تو زیادہ تر گفتگو زبانوں کے حوالے سے ہوئی۔سبھی دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں نے سندھی، پنجابی،سرائیکی، بلوچی، پشتو اور دیگر زبانوں کی ناقدری اور حکومت کے عدم تعاون کی بہت شکایت کی۔
اگر دیکھا جائے تو یہ بات غلط بھی نہیں ہے، کوئی بھی سرکار ہو،اس نے کبھی اس دھرتی کی ’’بولیوں‘‘ کو اہمیت نہیں دی۔۔۔ اور نہ ہی کبھی سرپرستی کی ہے۔اس حوالے سے سبھی زبانوں کے دانشوروں کے دِل بہت دُکھی تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ مقامی زبانوں،یعنی مادری زبانوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مادری زبانوں کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے۔
میری ذاتی رائے میں دانشوروں کی یہ بات درست ہے، کہ مادری زبانوں کے حوالے سے سرکاری سطح پر تعصب برتا جا رہا ہے اور سرکاری عدم تعاون صاف نظر آتا ہے،جو درست رویہ نہیں ہے۔

سرکار کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی ’’قومی بولیوں‘‘ کو نظرانداز نہ کرے، قومی بولیوں کے ساتھ ہمارے لوگ دل سے جڑے ہوئے ہیں، ان بولیوں کے ساتھ ہماری تاریخی ثقافتی، سماجی، رومانی جڑت ہے۔اگر ہم ان بولیوں کو بھلانا چاہیں یا مٹانا چاہیں تو بھی یہ نہیں مٹ سکتیں، کیا ہم وارث شاہ کی ’’ہیر‘‘کو بھلا سکتے ہیں۔

کیا ہم بلھے شاہ کی ’’بغاوت‘‘ کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ کیا ہم خواجہ فرید کی ’’جیٹوں‘‘ کے بغیر چولستان کو محسوس کر سکتے ہیں۔ کیا ہم میاں محمد بخش کے کلام کے بغیرروحانی آسودگی حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا ہم شاہ حسین کی کافیوں کے بغیر جی سکتے ہیں۔کیا ہم سلطان باہو کی ’’ہو‘‘ کے بغیر سانس لے سکتے ہیں۔کیا بابا رحمن خٹک، سجل سرمست کو بھلا سکتے ہیں۔۔۔؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہم نے ان بزرگوں اور ان کی بولیوں کو نظر انداز کیا یا بھلایا مٹایا تو پھر ہمارا اپنا وجود برقرار نہیں رہ سکے گا۔۔۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے ان ’’قومی بولیوں‘‘ میں ہے۔

ان بولیوں میں ہی ہماری زندگی ہے اور زندگی کے سبھی راز ان بولیوں میں پوشیدہ ہیں۔ ہم انہی بولیوں کے ذریعے اپنی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں۔سرکار کو چاہئے کہ وہ ان ’’بولیاں‘‘ بولنے والوں کی آواز کو قریب سے سُنے، ان کے مطالبات کو اہمیت دے۔

چاروں صوبوں میں سرائیکی، پنجابی، پشتو، بلوچی، سندھی کو قومی زبانوں کا درجہ دیتے ہوئے انہیں سرکاری سطح پر نافذ کرے۔ اُنہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جائے، بلکہ تمام صوبوں میں وہاں کی ’’بولیوں‘‘ کو لازمی قرار دے دیا جائے،ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو بھی چاہئے کہ وہ اُردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ’’قومی بولیوں‘‘ کو بھی نمایاں طور پر سامنے لانے کے لئے پروگرام تیار کرے۔

دُنیا بھر میں مقامی ثقافت اور زبانوں کو نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں ’’مقامی بولیوں‘‘ کو محض تفریح کے لئے پیش کیا جاتا ہے اور ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ یہ مقامی بولیاں بولنے والے اجڈ اور گنوار ہیں۔یہ ایک ظالمانہ رویہ ہے اور تعصب پر مبنی ہے جسے ختم کرنا چاہئے۔ آخر میں ملک مہر علی اور دیگر دوستوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے عزت بخشی۔

مزید :

رائے -کالم -