پاک بھارت کشیدگی کے مضمرات اور اُن کا حل
اگرچہ وطنِ عزیز سے جنگ کے بادل کسی حد تک چھٹ گئے ہیں جو اہلِ وطن کے لئے خوش آئند امر ہے۔ گذشتہ دنوں میں دونوں طرف شدید کشیدگی کا عالم تھا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ جو حق کسی کا بنتا ہو وہ اُسے ضرور ادا کرنا چاہیے، لہٰذا وزیر اعظم پاکستان سے ہزار اختلاف سہی، باایں ہمہ اُن کی خارجہ پالیسی کی داد دینا ہی پڑتی ہے۔
اُنہوں نے جس کشادہ دلی سے ہارے ہوئے دشمن کو اُس کے تباہ شدہ جہاز کا ونگ کمانڈر واپس کیا ہے اور پھر دنیا بھر سے اُس کی داد وصول کی ہے، اُس کی مثال کہیں کم ہی ملے گی۔ حکومت کے اس پیامِ امن کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا ہے اور بہت سے ممالک نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے، لیکن ہمسایہ ملک بھارت کی طرف سے نہ پیامِ امن کو سرِدست قبول کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ کسی کی ثالثی قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان نے امن اور شانتی کے بھرپور جذبات کے ساتھ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، مگر ’’واں ایک خامشی مرے خط کے جواب میں‘‘ والا معاملہ ہے۔
ایسی صورتِ حال میں دونوں جانب کے عوام کے ذہن و دل ٹینشن یعنی تشویش میں مبتلا ہیں اور ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے۔
جہاں تک وطنِ عزیز کا تعلق ہے، یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستانی قوم بلاامتیاز مذہب، نسل، رنگ، عقیدہ و مسلک ایک پیج پر ہے۔ حکومتِ وقت اور اپوزیشن کڑے ماحول میں ہونے کے باوجود ملک کی سلامتی، بقا اور تحفظ کے لئے دامے درمے قدمے سخنے ہم آواز اور ہم نوا ہے۔ اختلاف و نفاق کا دُور دُور تک کہیں وجود نہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے عوام بھی دونوں ملکوں کے درمیان مستقل امن اور دوستی کے خواہاں ہیں۔ وہاں اِس سلسلے میں مختلف مکاتبِ فکر اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے عوام نے اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے، لیکن بھارت کی موجودہ حکومت ٹس سے مَس ہوتی نظر نہیں آتی۔
تادمِ تحریر پاکستان کی طرف سے پیامِ امن کی قبولیت اور دوستی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھامنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔اس مرحلے پر عالمی برادری اگرچہ کشیدہ صورتِ حال پر پریشان بھی ہے اور اِسے دُور کرنے کے لئے دونوں ممالک سے رابطے میں ہے لیکن سرِدست بات بنتی نظر نہیں آتی۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔
جنگ حتیٰ کہ کشیدگی دونوں ممالک کے حق میں نہیں۔ دونوں طرف عوام کے مسائل حل طلب ہیں۔ غربت، بے روزگاری، پسماندگی، جہالت اور مفلسی کا راج ہے۔ ایسے عالم میں دونوں طرف کے عوام کے مفاد میں ہے کہ ہٹ دھرمی اور ضد بازی چھوڑ کر امن و آشتی کے دیے روشن کئے جائیں۔بصورت دیگر :
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
اب جبکہ بھارت اپنی سی چال چل کر دیکھ چکا ہے کہ پاکستان سے جنگ اُس کے بس کی بات نہیں، لہٰذا اُسے چاہیے کہ مزید ہزیمت اٹھانے کی بجائے بندے ماترم کہتے ہوئے دوستی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لے اور دونوں ملکوں کے درمیان جو حل طلب مسائل اور تنازعے ہیں، اُنہیں گفتگو کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کی سعی کی طرف راغب ہو جس میں کشمیر کا مسئلہ سب سے اوّل ہے اور دونوں ممالک میں دیگر تنازعوں کے علاوہ سب سے بڑا یہی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ بھارت کشمیر سے ہمارے حق میں دستبردار ہو جائے۔
ہمارا مطالبہ تو صرف یہ ہے کہ کشمیریوں کی خوں فشاں جدوجہد آزادی، جو وہ گذشتہ ستر سال سے پامردی سے جاری رکھے ہوئے ہیں ، کو انجام پذیر کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو آزادانہ حقِ رائے دہی کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے جس پر دونوں ممالک نے آزادی وطن پر دستخط کئے تھے اور آج بھی اقوامِ متحدہ کی اِن قرار دادوں کی سیاہی مدہم نہیں ہوئی ۔
نہ توکشمیریوں کی اِس طویل ترین تگ و تاز میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ ہی اُن کے قدم کہیں ڈگمگائے ہیں، بلکہ اُن کا آزادی کے حصول کے لئے غلامی کا طوق گلے سے اُتار پھینکنے کے لئے جوش و خروش بامِ عروج پر ہے اور تمام دنیا اس کی شاہد ہے۔
اس مرحلے پر پاکستان کو اپنے دوست ممالک پر بھی دباؤ بڑھانا چاہیے کہ وہ محض زبانی کلامی پاکستان کی حمایت نہ کریں، بلکہ سفارتی اور دیگر ممکنہ ذرائع سے بھارت کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کے لئے مجبور اور آمادہ کریں، نیز کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہادتوں کے سدِّباب کے لئے بھارت سے عالمی عدالت میں باز پرس کرے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان جس طرح فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کے لئے آواز بلند کرتا ہے اور اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر اپنے سیاسی مفاد سے بھی بالا ہو کر اُن کا ہم نوا ہے، اُس کے مقابلے میں عرب ممالک، اُس تندہی کے ساتھ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے لئے آواز بلند کرتے نظر نہیں آتے۔ ہم نے تو اسرائیل کو محض فلسطین کے حوالے سے تسلیم نہیں کیا، اگرچہ ہمارا اُس سے براہ راست کوئی تنازعہ نہیں۔
یہ الگ بات کہ مشرقِ وسطیٰ کے مصر سمیت کئی عرب ممالک اُسے تسلیم کر چکے ہیں، لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ اپنے دوست ممالک کو کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے بھارت کو پوری قوت کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے تمام تر ذرائع بروئے کار لائے جائیں تاکہ دونوں ممالک کو کشیدگی اور ممکنہ جنگ سے باز رکھا جا سکے۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جلد یا بدیر مسئلہ کشمیر کا حل ہی پائیدار امن کے قیام کا ضامن ہے۔