چینی اور گندم بحران کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ گندم اور چینی کے بحران میں ملوث کسی شخص کو معافی نہیں ملے گی،انہوں نے اپنی واضح پالیسی سے ساتھیوں کو آگاہ کر دیا ہے اور قریبی رُفقا کو اشارہ دیا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی، عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے والے میری حکومت میں نہیں بچ سکیں گے،رپورٹ کے مندرجات سے عوام کو آگاہ کیا جائے گا، صرف رپورٹ ہی منظر عام پر نہیں لائی جائے گی، ذمے داروں کو کیفر کردار تک بھی پہنچائیں گے حکومت کی پالیسی شفاف گورننس ہے کسی کو بحران پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔وزیراعظم ”ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے“ کی بات تو انہی دِنوں سے کر رہے ہیں جب چینی اور آٹے کا بحران جاری تھا، اس کے بعد تحقیقاتی کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں، جن کی رپورٹ اب وزیراعظم کے پاس ہے،لیکن اس بحران کا کون ذمے دار تھا، کسی کو درست طور پر تو معلوم نہیں۔ البتہ اپوزیشن مسلسل یہ الزام لگاتی رہتی ہے کہ بحران کے ذمے دار حکومت کے اپنے لوگ ہیں اور وہ وزیراعظم کے اردگرد موجود ہیں اِس الزام تراشی کو سیاسی بیان بازی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں الزام لگاتے وقت اس کی صحت کا بہت کم خیال رکھا جاتا ہے، ہو سکتا ہے اپوزیشن کا یہ الزام ایسے ہی ہو جیسے عمران خان ”35پنکچر“ والا الزام اپنی تقریروں میں اکثر دہرایا کرتے تھے، جس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ 2013ء کے الیکشن میں 35حلقوں میں دھاندلی ہوئی تھی یہ الزام اُس وقت پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر لگایا جاتا تھا،لیکن جب حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا تو اس کے روبرو کسی نے35 پنکچروں کا تذکرہ تک نہ کیا اور جب عمران خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو ”سیاسی بیان“ تھا گویا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ”سیاسی بیان“ کا حقائق پر مبنی اور درست ہونا ضروری نہیں،اسی طرح اپوزیشن اگر کل کلاں یہ کہہ دے کہ اس نے چینی اور آٹے کے بحران میں حکومت میں شامل لوگوں کی شراکت کی بات یونہی تفنن طبع کے لئے کر دی تھی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا تو یہ بھی ”سیاسی بیان“ ہی کی ذیل میں آئے گا۔وزیراعظم کی ہدایت پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹیوں نے چینی اور آٹے کے بحران کی جو تحقیقات کیں اس میں کن لوگوں کو ذمے دار ٹھہرایا گیا اس کا علم تو تبھی ہو گا جب وزیراعظم وعدے کے مطابق رپورٹ منظر عام پر لے آئیں گے،کارروائی تو بعد کا مرحلہ ہے،لیکن اِس سے پہلے یہ پتہ تو چلنا چاہئے کہ تحقیقاتی کمیٹیوں کے ارکان نے کن لوگوں سے تحقیقات کیں اور کیا وہ اپوزیشن کے اُن رہنماؤں سے بھی ملے، جو حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ بحران کے ذمے دار حکومت میں بیٹھے ہیں اور وزیراعظم کے اِردگرد دیکھے جا سکتے ہیں۔اگر تحقیقاتی کمیٹیوں کے ارکان نے اپوزیشن کے لیڈروں سے ملاقات کی ضرورت محسوس کی ہو گی تو ضرور ملے ہوں گے،لیکن ہو سکتا ہے کہ تحقیق کرنے والوں نے خود ہی فرض کر لیا ہو کہ اپوزیشن تو ایسے الزام لگاتی ہی رہتی ہے اس کے ارکان سے کیا ملنا،بہرحال تحقیقات میں جس نتیجے پر پہنچا گیا وہ تو تحقیقاتی رپورٹ منظر پر آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا،اِس لئے اگر وزیراعظم نے رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ قابل ِ تحسین ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ صرف ملزمان منظر عام پر آ جائیں گے،بلکہ تمام لوگوں کو بھی یہ یقین کرنے میں آسانی ہو گی کہ شفاف گورننس کے دعوے محض دعوے ہی نہیں ہیں،بلکہ عملاً بھی کام ہو رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں تو پارلیمینٹ میں بھی یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ ایف آئی اے کی رپورٹ پارلیمینٹ میں پیش کی جائے۔
اگر حکومت نے فیصلہ کر لیاہے کہ رپورٹ سامنے لائی جائے گی تو پھر پارلیمینٹ میں پیش کرنے میں بھی مضائقہ نہیں، اس سے ایک تو حکومت کا امیج بہتر ہو گا کہ وزیراعظم جو اعلانات کرتے ہیں اُن پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں اور دوسرے اپوزیشن کو تحریک انصاف کے اُن رہنماؤں پر نکتہ چینی کا موقع بھی نہیں ملے گا،جو ممکن ہے بے گناہ ہوں، لیکن اُن کی چونکہ شوگر ملیں ہیں اِس لئے نگاہیں اور انگلیاں اُنہی کی جانب اُٹھتی ہیں۔اگرچہ یہ حضرات بار بار کہہ چکے ہیں کہ اُن کا بحران پیدا کرنے میں کوئی حصہ نہیں اور تحقیقاتی رپورٹ میں بھی اُن کا نام نہیں۔
یہ اور بھی ضروری ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئے تاکہ جن لوگوں کے متعلق شکوک و شبہات پھیلائے جا رہے ہیں،ان کی پوزیشن واضح ہو سکے۔چینی بحران کے سلسلے میں اب تک کین کمشنر کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کی اطلاع ہے اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے چینی بحران کے بارے میں درست اور بروقت اطلاعات نہیں دیں، لگتا یہ ہے کہ اگر تحقیقاتی رپورٹ پوری طرح منظر عام پر نہ آئی تو بحران کے بڑے ذمہ داروں کے خلاف شاید کوئی کارروائی نہ ہو اور چھوٹے موٹے سرکاری اہلکار ہی اس کی زد میں آئیں، اگر ایسے لوگ بھی قصور وارہوں تو اُن کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہئے،لیکن ایسا نہ ہو کہ اصل ذمے دار تو بچ جائیں اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ کر حکومت بھی سرخرو ہو جائے،ایسی کسی نیم دلانہ کارروائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی حکومت کے اس دعوے پر عمل ہو سکے گا کہ بحران میں ملوث کوئی بھی شخص نہیں بچ سکے گا۔شفاف گورننس کا دعویٰ بھی دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔آٹے کے بحران پر اگرچہ جلد ہی قابو پا لیا گیا اور اسے پھیلنے اور بڑھنے سے روک لیا گیا،بلکہ بعض نمائشی اقدامات بھی ہوئے اور ایک اپوزیشن خاتون رہنما کے گھر کے دروازے پر آٹے کے تھیلے یہ ثابت کرنے کے لئے ڈھیر کر دیئے گئے کہ اس کا کوئی بحران نہیں،دراصل یہ بڑا باریک کام تھا اور جن سرکاری اہلکاروں نے یہ کیا اُن کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہ ہوئی،انہوں نے بڑی تعداد میں ایسی فلور ملوں کو بھی سرکاری گندم جاری کر دی جو پانچ سال سے بند پڑی تھیں اب ظاہر ہے اس گندم کو اِن ملوں میں تو پیسا نہیں جا سکتا تھا،اِس لئے سرکاری نرخوں پر ملنے والی یہ گندم آگے اُن ملوں کو فروخت کر دی گئی جن کو ضرورت کے مطابق گندم نہیں مل رہی تھی اور وہ شور کر رہے تھے کہ ہمیں سرکاری نرخوں پر ہماری طلب کے مطابق گندم دی جائے اور سستا آٹا لے لیا جائے۔بہرحال اس چند روزہ بحران میں جو لوگ کمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے انہوں نے ایسا کر کے دکھا دیا اور ہینگ اور پھٹکڑی لگائے بغیر ہی رنگ بھی چوکھا نکال لیا،اب تو پرائیویٹ سیکٹر کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔کئی سال کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا جب بیرونِ ملک سے گندم امپورٹ ہو گی ورنہ پچھلے برسوں میں تو مسئلہ یہ تھا کہ ملک کے اندر جو گندم موجود ہے اس کی سٹوریج کا تسلی بخش انتظام نہیں،گندم کی یہ درآمد مہنگے داموں ہو گی اور اس سے بننے والا آٹا ملکی گندم سے تیار ہونے والے آٹے کی نسبت مہنگا بھی ہو گا،اُس وقت تک شاید نئی فصل بھی منڈیوں میں آ جائے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ گندم کی خریداری کے وقت ہی درست اندازہ لگا لیا جائے کہ اندرونِ ملک کتنی گندم درکار ہو گی اور کتنی گندم قانونی اور غیر قانونی ذرائع سے افغانستان چلی جائے گی،کیونکہ افغانستان تو ہمیشہ اپنی ضرورت پاکستان سے ہی پوری کرتا ہے۔اِس پہلو کو پیش ِ نظرر کھ کر گندم کی خریداری کا اہتمام ہونا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی دیکھا یا اَن دیکھا بحران پیدا نہ ہو۔