سود، قادیانیت اور اہل ِ مغرب کے تعصب بارے مفتی تقی عثمانی کے خیالات

سود، قادیانیت اور اہل ِ مغرب کے تعصب بارے مفتی تقی عثمانی کے خیالات
 سود، قادیانیت اور اہل ِ مغرب کے تعصب بارے مفتی تقی عثمانی کے خیالات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھ سمیت بہت سے شرکائے محفل کی یہ مفتی علامہ تقی عثمانی سے پہلی ملاقات تھی۔ ملتان میں اُن کی آمد پر ملتان سے تعلق رکھنے والے ممبر برٹش ایمپائر برطانیہ طہٰ قریشی نے اُن کے اعزاز میں یہ تقریب سجائی اور شہرکی چیدہ چیدہ شخصیات کو ایک عالم دین کے ساتھ مل بیٹھنے کا موفع فراہم کیا۔ مفتی تقی عثمانی خاصے سادہ مزاج اور بذلہ سنج انسان ہیں،اُن کی حس ِ مزاح بھی محفل کو زعفران زار بنا دیتی ہے۔اُن کا شمار ملک کے ایسے علمائے کرام میں ہوتا ہے جو اتحادِاُمت ِ مسلمہ کی بات کرتے ہیں، جو ایسی رائے کا اظہار نہیں کرتے جو تقسیم کرتی ہو، وہ جمع کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا ہر طبقہ ئ فکر و مسلک میں احترام کیا جاتا ہے۔یہ محفل جو اُن کے اعزاز میں سجی ایک فکری نشست ثابت ہوئی، تاہم اس میں شعر و شاعری کا تڑکا بھی لگا اور ہلکے پھلکے مزاح کی آمیزش سے ماحول کو بوجھل بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ اس تقریب میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی، مدرسہ خیر المدارس کے مہتمم قاری حنیف جالندھری، جوائنٹ گروپ ایڈیٹر روزنامہ ”پاکستان“ شوکت اشفاق، معروف صنعت کار خواجہ محمد یوسف، میاں عامر نسیم، کالم نگار خالد مسعود خان، اظہر سلیم مجوکہ، عامر شہزاد صدیقی، سلیم رضا آصف، ممتاز آبی ماہر انجینئر ممتاز احمد خان، منور خورشید، خواجہ حبیب، جمشید رضوان، پروفیسر علی سخنور و دیگر احباب موجود تھے۔ مفتی علامہ تقی عثمانی کو جونہی علم ہوا کہ مَیں شاعر بھی ہوں تو انہوں نے اپنی گفتگو سے پہلے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مَیں کچھ سناؤں۔مَیں نے اپنی ایک غزل سنائی، جس کے اس شعر کو انہوں نے بار بار سنا ہے:


کتنا دلکش تھا وہ منظر مرے مر جانے کا
اُس نے جب زہر پیالے میں ادا سے رکھا
بعد میں انہوں نے جب اپنی غزلیں سنائیں تو اس شعر کا ذکر کرتے ہوئے اس موضوع پر اپنا بھی ایک شعر سنایا۔ مفتی تقی عثمانی سے حاضرین موجودہ حالات کے تناظر میں بہت کچھ پوچھنا چاہتے تھے۔ کئی سوال تو اُن کے سامنے رکھے بھی گئے، تاہم انہوں نے ایک ایک سوال کا جواب دینے کی بجائے مجموعی تناظر میں کچھ ایسی رہنما باتیں کیں، جن میں ہر شخص کے سوال کا جواب موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے اندر بے چینی کی بڑی وجہ اُن کی قرآن وحدیث اور فقہ سے علمی سطح پر دوری ہے۔اللہ نے ہمیں جو رہنمائی عطا فرمائی ہے، وہ ہماری آنکھوں سے اُوجھل ہے۔ اُوجھل اس لئے ہے کہ ہم نے اُس تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جب ہمیں اپنی لاعلمی کی وجہ سے رہنمائی نہیں ملتی، تو ہم پر غیر مسلم قوتوں کے افکار غالب آ جاتے ہیں۔ ہمیں معاشرے میں انتشار اور گڑ بڑ کی خبر تو ہوتی ہے،اُس سے نکلنے کا حل ہمیں معلوم نہیں ہوتا، حالانکہ قرآن و حدیث اور فقہ میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے اور ہر معاملے میں رہنمائی مل سکتی ہے،جو علم ہمارا سرمایہ ہے، قیمتی اثاثہ ہے، ہم اُسے خود چھوڑ رہے ہیں،وہ ہماری نظروں سے اُوجھل ہوتا جا رہا ہے۔ قرآن مجید تو پھر بھی کچھ لوگ ترجمے کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں،حدیث اور فقہ سے تو ہم بہت دور ہیں،حالانکہ ان میں رہنمائی کے تمام اسباب مہیا ہیں۔ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حل پیش نہیں کیا۔دین کی سمجھ سے دوری ہی ہمارا سب سے بڑا بگاڑ ہے۔اگر ہم اس بگاڑ کو ختم کر دیں تو اپنے اکثر مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔


مفتی علامہ تقی عثمانی نے کہا کہ سود بارے اسلام میں بڑے سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، اسے اللہ سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجارت کا ایک بنیادی اصول یہ بتایا تھا کہ کسی چیز کا اُس وقت تک سودا نہ کرو، جب تک وہ تمہارے پاس، تمہارے قبضے میں موجود نہ ہو، جبکہ سرمایہ داری نظام میں سب کچھ اندازوں اور قیاسوں پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ اشیاء بھی بیج دی جاتی ہیں جو ابھی معرضِ وجود میں ہی نہیں آئی ہوتیں، جس کی بنیاد پر یہ سودی نظام پروان چڑھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیووس کی کانفرنس میں انہوں نے سودی نظام کے متبادل اسلامی اقتصاد کا نظام پیش کیا تھا، جسے بہت سراہا اور قابل ِ عمل بھی قرار دیا گیا،لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وال سٹریٹ جرنل، یعنی سرمایہ دارانہ نظام اسے قبول نہیں کرے گا،کیونکہ اس طرح دُنیا پر اُس کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔یہ پوری دُنیا میں بھی چل سکتا ہے، مگر مغرب کا سرمایہ دار مافیا اسے چلنے نہیں دے گا۔ مفتی علامہ تقی عثمانی نے بتایا کہ اس وقت دُنیا کی معیشت میں صرف3فیصد سرمایہ نوٹوں کی صورت میں زیر گردش ہے، باقی 97فیصد کاغذ کی شکل میں ہے۔ یہی وہ پہلو ہے،جو سرمایہ دارانہ معیشت کو مصنوعی طور پر مضبوط کر کے دُنیا کے لئے بحران پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے اس کی مثال یہ دی کہ آپ کے پاس زمین ہی موجود نہ ہو،لیکن آپ اُس کی فائل بیج دیں، تو اس سے مجموعی معیشت کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟اسی لئے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اُس شے کا سودا نہ کرو جو تمہارے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔


طہٰ قریشی نے کہا کہ وہ برطانیہ میں رہتے ہیں اور وہاں خاص طورپر پاکستانی مسلمانوں کا امیج بہت خراب ہے۔اُن کے ساتھ امتیازی سلوک بھی کیا جاتا ہے اور اُن کی اخلاقی کمزوریوں کے باعث سوالات بھی اُٹھتے ہیں ……اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس خراب امیج کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ اس پر مفتی علامہ تقی عثمانی نے بہت مدلل اور سیر حاصل جواب دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کا امیج ایک تو اُن کے عمل کی وجہ سے خراب ہے۔ وہ قانون شکنی کرتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں۔وہ ایک قانون پسند معاشرہ ہے۔وہاں طاقتور یا کمزور کا کوئی تصور نہیں، نہ ہی کوئی بااثر قانون سے بالاتر ہے اور نہ کوئی کمزور کسی بااثر کے ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ ہمارے پاکستانی چونکہ قانون کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور پاکستان کی طرح وہاں بھی من مانی آزادی چاہتے ہیں،اِس لئے اُن کی حرکات پاکستان کے لئے بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔

اس سلسلے میں پاکستان کی کمیونٹی کو متحرک ہونا پڑے گا تاکہ ایسے لوگوں کی اصلاح کرے اور پاکستان کے امیج کو خراب نہ ہونے دے،تاہم ساتھ ہی مفتی علامہ تقی عثمانی نے ایک اور بات بھی کی۔انہوں نے کہا ایک اور وجہ بھی ہے، جو پاکستان کے لئے یہود و نصاریٰ کے ذہن میں نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہ وجہ پاکستان کا اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنا اور دوسرا پہلو ایٹمی اسلامی ملک بننا ہے۔یہ دونوں باتیں ہی مغرب والوں کو ہضم نہیں ہوتیں اور وہ کوئی نہ کوئی ایسا بہانہ تلاش کر لیتے ہیں،جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک دہشت گرد، غیر ذمہ دار اور ناقابل ِ بھروسہ ملک قرار دے سکیں۔وہاں ایسی قوتیں، جو اسلام دشمن ہیں، جب جہاد کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہیں تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے قادیانی فتنے کا آغاز بھی اسی لئے ہوا کہ انہوں نے جہاد کے خلاف بیان دیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔آج بھی قادیانیوں پر مغرب کا دست شفقت موجود ہے اور وہ پاکستان واسلام کے خلاف سازش کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔


قادیانیت کے حوالے سے مفتی علامہ تقی عثمانی نے بڑی اہم بات کی۔انہوں نے کہا کہ جب یہ فتنہ پیدا ہوا تھا تو اُس وقت اس کے خلاف اشتعال اور غم و غصہ جائز تھا، کیونکہ اس کے ذریعے اسلام کی بنیادیوں کو ہلانے کی سازش کی گئی تھی،مگر اب جبکہ بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے اور سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ قادیانی اسلام کے خلاف ایک سازشی ٹولہ ہیں اور غیر مسلم ہیں، تو اب اشتعال کی بجائے پیغمبرانہ دعوت کے ذریعے انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جلاؤ گھیراؤ یا مشتعل ہو کر املاک کو نقصان پہنچانے کی بجائے تبلیغ و دعوت سے ان بھٹکے ہوؤں کو راہِ مستقیم پرلانے کی تدبیر ہی مسئلے کا حل ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں مولانا تقی عثمانی نے کہا کہ قادیانی کی کسی حساس عہدے پر تقرری کی مخالفت اس لئے کی جانا ضروری ہے کہ وہ وہاں بیٹھ کر اپنا ایجنڈا نافذ کرے گا۔ ہاں اگر قادیانی خود کو غیر مسلم اقلیت مان لیں تو انہیں پاکستان میں دوسری اقلیتوں کی طرح مکمل شہری حقوق دیئے جا سکتے ہیں، مگر وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آخری بنیؐ کو بھی نہیں مانتے تو انہیں یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کہ اسلام کی وحدانیت اور حقانیت کو مسخ کرنے کی کوشش کریں؟ مفتی علامہ تقی عثمانی سے یہ ملاقات خاصی معلومات افزا رہی،جس پر تمام شرکاء نے میزبان طہٰ قریشی کا شکریہ ادا کیا۔

مزید :

رائے -کالم -